ملکی مفاد کا احساس

طاہر یاسین طاہر
تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں جرات مند اقوام ہی سربلندی کے ساتھ زندہ رہتی ہیں۔ بات بڑی سادہ سی ہے کہ ہر ملک اپنے قومی مفاد کو عزیز رکھتا ہے۔پاکستان کو بھی اپنا قومی مفاد بڑا عزیز ہے مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ یہ قومی مفادحکمرانوں کے ذاتی مفاد کا ہی دوسرا نام ہے۔توانائی بحران کے حل کا جو رینٹل نسخہ تجویز پایا اس میں اس قومی مفاد کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے۔حکمران طبقہ لے دے کے ہر مسئلے کے حل کے لیے امریکہ کی طرف دیکھتا ہے،یا پھر امریکی اجازت کا طلبگار کہ اذن ملے تو دیگر ہمدرد ملکوں کی کسی پیشکش سے استفادہ کیا جائے۔بات زمینی حقائق کے ترازو میں تولی جائے تو ہم ہمیشہ کی طرح آج بھی امریکہ کے ہی دست نگر ہیں اور اس کم نصیبی کی کئی ایک وجوہات ہیں۔قومی قیادت کا فقدان تو قائدِ اعظم کی وفات کے وقت سے ہی چلا آرہا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کا زمانہ یاد کیا جاتا ہے مگر اس کے بعد؟دور تلک اندھیرا،غیر ملکی آقاؤں کی جی حضوری اور بس۔قیادت اگر ہوشمند ہوتی تو ملک اندھیروں میں نہ ڈوبتا۔توانائی کے شدید بحران نے بیروزگاری میں بری طرح اضافہ کیا،معاشرتی بگاڑ کی کئی صورتیں سامنے آئیں۔توانائی بحران کے حل کے لیے تو ایران ہمہ وقت تیار ہے لیکن کیا ہم بھی اسی گرم جوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟بالکل نہیں۔البتہ کبھی کبھی دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے یہ بیان ضرور داغ دیتے ہیں کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر ضرور عمل درآمد ہو گا۔جرات مندی سے کیے گئے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے بھی ویسی ہی جرات مندی کی ضرورت ہے۔ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر علی لاریجانی نے دو دن قبل پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ’’امریکہ دھونس کے ذریعے پاک ایران گیس پائپ لائن کی مخالفت کر رہا ہے لیکن حتمی فیصلہ حکومتِ پاکستان اور پاکستانی عوام کو ہی کرنا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے کیا چاہتے ہیں؟اس وقت مختلف ملکوں کی ترجیحات ان کے اپنے مفادات ہیں،جو ملک اپنے مفادات پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں وہ زیادہ کامیاب رہیں گے‘‘علی لاریجانی کی بات صد فی صد درست ہے،ہمیں اپنے مفادات پر توجہ مرکوز رکھنی ہے،مگر ویسی قیادت کہاں سے آئے؟ہماری تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ ہم نے ملکی ترقی کے بجائے غیر صحت مندانہ داخلی و خارجی امور کو اپنی قومی ترجیحات کا حصہ بنائے رکھا،اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ مہنگائی،بیروزگاری،دہشتگردی،توانائی بحران اور ایک درد مند قیادت کا فقدان۔ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ قیادت درد مند ہو تو ملک بحرانوں کا شکار نہیں ہوا کرتے۔حکمران طبقے کے بیانات کو دیکھا جائے تو ان کی خواہش تو ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ تکمیل کو پہنچے مگر ان کی ذاتی مجبوریوں نے ان کی جراتوں کو نکیل ڈال رکھی ہے۔گزشتہ سے پیوستہ روز ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر نے لاہور میں صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی تو اس دوران میں صدر نے کہا کہ’’پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل ملکی مفاد میں ہے،صدر نے مزید کہا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف ملکی توانائی کی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ توانائی بحران کا خاتمہ بھی ہو گا اور پاکستان توانائی بحران کے تناظر میں منصوبے کی جلد تکمیل کا خواہاں ہے‘‘مگر سوال یہ ہے کہ اس منصوبے کو جلد پایہ ء تکمیل تک پہنچانے کے لیے پاکستان ویسی گرمجوشی کیوں نہیں دکھا رہا جیسی ایران دکھاتا ہے؟بلاشبہ عالمی دباؤ۔
ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ مذکورہ منصوبہ ہی ملک کو توانائی کے شدید بحران سے نجات دلا سکتا ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ پہلے دن سے ہی اس منصوبے کے خلاف بزرگ شیطان طرح طرح کی شیطانیاں کر رہا ہے۔۔پاکستان کو اس موقع پر استقامت اور قومی وقار کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔بلاشبہ امریکہ خطے میں اپنے استعماری مقاصد رکھتا ہے اور ان مقاصد سے قریب تر ہونے کے لیے اسکی سخت نظریں پاک ایران گیس منصوبے پر بھی جمی ہوئی ہیں۔وہ دوستی کے لبادھے میں منافقانہ چالیں بھی چلے گا اور فرعونی رعونت بھی دکھائے گا۔امریکہ آئی ایم ایف جیسے ہتھیار کو بھی استعمال میں لائے گا اور نیٹو کو بھی تو مدد کے لیے پکارا جا سکتا ہے نا؟چنانچہ قومی مفاد کے اس اہم منصوبے پر نیم دلانہ پیش رفت کرنے کے بجائے اسے مکمل کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ہم اگر اکتوبر دو ہزار گیارہ کو یاد کریں تو اس وقت کی امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن پاکستان کے دورے پر تھیں۔حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کا کہنے کے ساتھ امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر امریکہ کو تحفظات ہیں،اور ان ہی امریکی تحفظات کے پیشِ نظر وفاقی وزیرِ پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا تھا کہ’’ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر عالمی حالات دیکھتے ہوئے ہی پیش رفت کریں گے‘‘امریکہ متعدد مرتبہ مذکورہ منصوبے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہے۔اس منصوبے سے امریکہ بھارت کو پہلے ہی الگ کر چکا ہے،اور بھارت کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس کے ساتھ سول ٹیکنالوجی کا معاہدہ بھی کر چکا ہے۔ اس منصوبے سے بھارت کی علیحدگی کے بعد پاکستان اور ایران نے باہم معاہدہ کیا، مگر امریکی دباؤ کے باعث پاکستان کی جانب سے سست روی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا۔یاد رہے کہ مجوزہ منصوبے کے تحت پاکستان ایران سے یومیہ دو کروڑ مکعب گیس در آمد کرے گا۔ جبکہ اس منصوبے کی تکمیل پر ساڑھے سات ارب ڈالر لاگت آئے گی۔منصوبے کے تحت گیس پائپ لائن منصوبہ اگر ۳۱ دسمبر۲۰۱۴ تک آپریشنل نہ ہوا تو تاخیر کے ذمہ دار ملک کو بیس کروڑ ڈالر جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔
اس امر میں کلام نہیں کہ برادر اسلامی ملک اپنے حصے کے کام میں تاخیر نہیں کرے گا،مگر ہم عالمی دباؤ کا شکار ہیں۔امید و تو قعات انسان کو عمل پرآمادہ کرتی ہیں۔عالمی دباؤ اپنی جگہ ، امید ہے کہ یہ منصوبہ آخرِ کار پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔زمینی حقائق بھی تو بدل رہے ہیں،امریکہ دباؤ تو برقرار رکھے گا مگر اس قدر ناک بھوں بھی نہ چڑھائے گا کہ اسے افغانستان سے انخلا کے لیے بہر حال پاکستان کی مدد اور حمایت کی ضرورت ہے۔البتہ پاکستان کو توانائی بحران سے نجات دلانے کے لیے امریکہ سبز باغ ضرور دکھائے گا اور آخری حربے کے طور پر جند اللہ کو بھی تو حرکت میں لا سکتا ہے نا؟بلاشبہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ مجوزہ منصوبے کی تکمیل ہی ملکی مفاد میں ہے ۔ توقع کرنی چاہیے کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جمہوری حکومت جمہور کے مفادات کو ضرور مد نظر رکھے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں