ملمع ساز کرسیوں پر اور کلاں کار سڑکوں پر

گذشہ روز مجھے اور میرے ایک دوست کو صدر جانا ہوا جس کام کے سلسلے میں گئے تھے اس کام میں کچھ دیر تھی جس کی وجہ سے ہم نے موسم کی نزاکت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے صدرExploreکرنے کا منصوبہ بنالیا اور چل دیے۔ تھوڑا پیدل چلے تو بھوک نے بھی آن دستک دی کیوں کہ ہم در پہ آئے ہوئے مہمان کی مہمان نوازی کیے بغیر واپس بھیجنے کے قائل نہیں سو ہم نے کہیں اچھی سی جگہ کھانا کھانے کا منصوبہ بنایا۔

پہلے صدر کو مطلقا دیکھا اور گھومے لیکن اب خاص طور پر کچھ کھانے پینے کے موضعات کو تلاش کرنے لگے کچھ دیر کی تلاش کے بعد آخر کار ہمیں ایک مناسب جگہ میسر آگئی اور ہم کھانے کے دستر خوان پر بیٹھ گئے۔ ہوٹل کے جو کمتری تھے وہ جنت نظیر باغ سے تعلق رکھنے والے ”ماسیر“ تھے جو ہماری توجہ کو ہوٹل کی طرف مبذول کروانے میں ممدومعاون ثابت ہوئے۔ انہوں نےMenuلاکردیا چند ساعتوں کے باہمی مشورے کے بعد ہم نے کھانا منگوایا کچھ اپنی پسند کا اور کچھ ماسیر کی۔

بہرکیف جوں ہی کھانا دسترخواں پر پہنچا تو ایک خاتون یک دم سے ہمارے سامنے آگئیں جو کہ عمر رسیدہ نظر آرہی تھیں اور ان کے ہاتھ میں چند Keychainsاور چند جرابوں کے جوڑے تھے جن کو بیچ کر وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں۔ انہوں نے ادبا ہم سے کہا”بیٹا! یہ چند اشیاء مجھ سے خرید لو اگر آپ کچھ خرید لو گے تو میرے بال بچوں کی روزی روٹی کا سامان لینے میں مدد ہوجائے گی اور میں آپ کی بہت شکر گزار رہوں گی۔

اس خاتون کی گفتگو سن کر میں نے اور میرے دوست نے ایک دوسرے کی طرف حیرانی سے دیکھا اس لیے کہ اس خاتون کی نفاست سے لبریز اردو ہمیں اس قدر پسند آئی اور دل کو بہا گئی کہ جس کو لفظوں میں بیان کرنا راقم الحروف کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔بہرحال یہ باتیں تو وہ تھیں جو کچھ لمحے سماعتوں کے لیے رس گھولنے کی مانند رہیں لیکن جوں ہی اس خاتون نے بولا کے میں ایک استانی اور افسانہ نگار بھی رہ چکی ہوں تو ایک ادبی شخص کے لیے یہ بات کس قدر معنی خیز ہوگی۔یہ سنتے ہی میرے اور میرا انگشت بدندان رہ گئے اور ہم خاتون کے ادب میں کھڑے ہوگئے اور انہیں بیٹھنے اور اپنے ساتھ کھانے پر مدعو کیا کافی اصرار کرنے پر انہوں نے اپنا قیمتی وقت ہمیں عنایت فرمایا۔

پھر خاتون نے ایک خوب رو بچے کو اشارہ کیا جو دیکھنے میں ایک بڑے خاندان کا چشم و چراغ لگتا تھا۔ اس وقت تک ہم اس سے نا آشنا تھے اس بچے نے آتے ہی سلام کیا اور دسترخوان پر ہمارے ساتھ بیٹھ گیا ہمارے استفسار سے قبل ہی خاتون نے اس کا تعارف کرواتے ہوئے بولا یہ میرا بیٹا شاہ روم ہے۔جو کہ ایک کونے میں کھڑا اشیاء کی خرید وفروخت اور پرچہ کی تیاری میں محو ہے کیونکہ اس کا کل انگریزی کا پرچہ بھی ہے۔جب ہم ماں بیٹا تھک کر کہیں بیٹھ جاتے ہیں تو میں اس سے سبق سن لیتی ہوں کیوں کہ میں خود بھی انگریزی اور اردو کی ایک ہی وقت میں استانی رہ چکی ہوں اردو میں ماسٹر کیا اور انگریزی سیکھنے میں میرا شوق و اشتیاق ممد و معاون ثابت ہوا۔یہ تمام باتیں سن کر میری آنکھیں آنسووں سے تر ہو گئیں۔اس پر میں نے عرض کی جیسا کہ آپ نے اتنا کچھ بتایا کہ آپ نے اتنے مشغلے اختیار کیے

لیکن اب آپ ان مشاغل میں مشتغل کیوں نہیں ہو رہیں۔آپ نے پڑھانا کیوں چھوڑا؟خاتون نے آہ بھری اور بولا”بیٹا! ایک ٹانگ سے معذور ہوگئی ہوں ناں اس لیے اور ہمارے معاشرے میں لنگڑی استانی بن سکتی ہے کیا یہ کہتے ہی ہم سب پر کچھ دیر سکتہ سا طاری ہوگیا پھر کچھ لمحے بعد چونکہ وہ خاتون ہماری نم آنکھیں دیکھ کر ہماری کیفیت سمجھ گئی تھیں استانی جو ہوئیں تو انہوں نے بات کو بدل کر بطور تفنن ایک جملہ کہا مسکراتے لہجے میں جس میں بہت بڑا سبق مخفی تھا اور بہت پر اثر جملہ تھا وہ تھا”کرونا نے رونا لیا اور ہم وہاں سے یہاں آبسے“ کہنے لگی ہمارے زوال کی داستان کرونا کی داستان سے شروع ہوئی میرے خاوند کرونا کی زد میں آکے بیمار ہوگئے

اور ان کا کاروبار بھی اس سلسلہ میں اختتام پذیر ہوا یہ گزشتہ ایک سطر کی تشریح کی۔ وہ پھر کہنے لگیں ہم میاں بیوی اچھے عہدوں پر فائز تھے میرے دو بیٹے ہیں جو اچھے سکولوں میں تعلیم جاری رکھے ہوئے تھے لیکن حالات کے پیش نظر ایک نوکری کررہا ہے اور ایک پڑھ رہا ہے بڑا باپ کی جگہ اور باپ کی طرح گھر کا خرچہ چلا رہا ہے اور چھوٹا دن کو سکول اور شام کو میرے ہمراہ اسی طرح نظام رب تعالی چلا رہا ہے۔

بڑا بیٹا رات گئے نوکری کرتا ہے اور ہمیں بھی ساتھ لے کر چل کی طرف روانہ ہوتا ہے اور کبھی تو ہم خود ہی چلے جاتے ہیں۔اتنی مفصل داستان سن کر میرے الفاظ میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے کہ میں کچھ بول سکوں اس وقت صرف دماغ میں ایک ہی بات چل رہی تھی کیا وقت انسان کو اس حال میں بھی لاکر کھڑا کر سکتا ہے؟ایک پہلو تو یہ رہا کہ وہ عظیم لوگ ”تلک الایام نداولھا بین الناس“ کے مصداق بھی ٹھہرے اور اصلی معنوں میں یہ چیز انکی صورت و سیرت سے عیاں تھی لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ اگر آپ اور راقم الحروف ملاحظہ کریں تو یہ بات ذھن کے کونوں گوشوں میں گونجتی ہے کہ آیا اس طرح کے بھی لوگ دنیا میں موجود ہیں؟

جو ایک عارضی سی معذوری کے باعث کسی شخص کی سالوں کی محنت کو رائیگاں کر دے۔کیا یہ ہے انسانیت؟ کیا ہمیں یہ علم سکھاتا ہے؟ اور کیا یہ پڑھایا جاتا ہے؟جو ظاہرا تو علم لیکن اصل میں جہالت ہے اور اب یہ چیزیں تو روز ہی دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ہنر مند لوگ اسی طرح سڑکوں پر پھرتے ہیں اور انگوٹھے چھاپ کرسیوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔اس عذاب کی سب سے بڑی وجہ میری نظر میں اپنے محسنین کی قدر نہ کرنا ہے جب ہم ان کا ادب اور احترام ملحوظ خاطر نہیں رکھیں گے تو ایسا عذاب ایسی جہالت اور ایسی بد امنی،بد مذہبی، بے راہ روی، ہماری زندگیوں کا حصہ بن کر ہمیں ایک اژدھا کی طرح ڈستی رہیں گی۔

یہ تو ایک قصہ ہے جو میری زندگی کے ایک لمحے میں گزرا مجھے یقین ہے ایسے کئی سارے قصص آپ کی زندگیوں میں پیش آئے ہوں گے۔ اب تو خدارا اپنی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھیں اور دیکھیں کیا ہم صحیح راستے کی طرف گامزن ہیں یا نہیں۔ یاد رکھیں! وہ دن دور نہیں اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو ایک دن ہمیں بھی چنگیزی، تیموری اور ہلاکو کی صورت میں عذاب کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور انہی ظالمانہ نظاموں کی بناء پر اپنی کھوپڑیوں کے مینارے بنوائیں گے لہذا ہر شخص کو اسکا حق دیں۔حقوق العباد ایسی چیز ہے جو کبھی معاف ہونے والی نہیں اور ہمارے اقتدار پر براجمان لوگ اور خصوصا انگوٹھا چھاپ،اور جاہل لوگ یہ سوچیں

کہ ہماری وجہ سے کتنے لوگوں کی”آہ“ نکلی اور کتنے غریب لوگ ہماری ان حرکات کی وجہ سے بے گھر ہوئے۔یہ احساس علم کے ساتھ ساتھ تربیت ہی سیکھا سکتی ہے جو کہ آج کے لوگوں میں مفقود ہوچکی ہے۔ خدارا با صلاحیت کو بے صلاحیت اور بے صلاحیت کو با صلاحیت نا بنائیں اور حق سچ کو اختیار کریں۔ اسی میں ہماری کامیابی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں