23

فیض حمیداور اس کے سہولت کار اپنے غدار محلوں میں غداری کی نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں؟

قارئین کے لئے مورخہ24 اگست کے کالم ”غداروں کی تاریخ” سے ماخوذ ایک اور کالم۔
مورخہ 10 دسمبر 2024 ہے اور آئی ایس پی آر نے پریس ریلیز کی ہے جس میں ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کو کورٹ مارشل میں چارج شیٹ کر دیا گیا ہے۔ ان کے اوپر الزام تھا کہ انہوں نے ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی میں اپنے سرکاری اثر و رسوخ کا استعمال کیا ہے اور دوسری جانب ایک سیاسی پارٹی کے لیے بھی اپنا اثرورسوخ کا واضح اور ناجائز استعمال کیا ہے۔ بادی النظر میں یہ الزام نہایت معمولی حیثیت کے ہیں مگر ان امور سے پاکستان اور پاک فوج کی ساکھ کو غیر معمولی نقصان ہوا ہے۔


اس فیصلے کے بعد کچھ زیرک سیاست دان اور بے شمار سیاسی نابالغ نام نہاد سیاستدان اپنی بندِ قبا دیکھ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ کچھ فیض حمید کے ہم پیشہ ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کو بھی پیٹی بند بھائی کے ساتھ اپنی پیٹی کی فکر لاحق ہو چکی ہے! تاہم فیض حمید صاحب، راحت اندوری کا شعر پڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ع۔ لگی ہے آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے۔

اب دیکھتے ہیں اور کتنے گھر اس آگ کی زد میں آتے ہیں! ارضِ وطن کو اس حالت میں لانے والوں میں ایک شخص ثاقب نثار بھی ہے یہ وہی شخص ہے جس کی آڈیوز آج کل سوشل میڈیا میں فیرانزک کے ساتھ موجود ہیں۔
سابقہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ بھی اس ساری زبوں حالی میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ اگرچہ جنابِ من اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ یعنی ان کے وعدہ معاف گواہ بننے میں دیر نہیں لگے گی۔
رہی بات اس سیاسی پارٹی کی جس کے لیے فیض صاحب اپنے سرکاری اثر و رسوخ استعمال کر رہے تھے وہ پارٹی تو پہلے ہی نو مئی کے بعد سے ایک ڈبہ پارٹی بنا دی گئی ہے۔ امریکہ میں کانگریس کی قرارداد، برطانیہ کا سینیٹ میں بل، گولڈ سمتھ لابی، اور اس جماعت کی ہائیر کی ہوئی امریکہ میں لابسٹ فرم، یہ سب پاک فوج کے آگے بے دست و پا نظر آتے ہیں۔


ایک نام تو ابھی باقی ہے جو ان سب کے پیچھے بہرحال تیر کے کمان کی طرح موجود تھا۔ ہر تیر اس کے بتائے ہوئے زاویے میں رہ کر مقتل کی طرف جاتا تھا۔ اس کمان کا مثلث بھی مربع تھا، اس کا ہر زاویہ عمودی تھا۔ جس کا نام لیتے ہوئے تمام صحافی آج بھی ہچکچاتے ہیں اس کا نام ٹیلی ویژن پر ٹیلی کاسٹ ہونے سے پہلے ایک بیپ کی آواز اختیار کر لیتا ہے۔

جی ہاں وہ نام کوئی اور نہیں ملک ریاض (عرف پراپرٹی والا ہے) یہ وہی ملک ریاض ہے جس کا کالا دھن 190 ملین پاؤنڈ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پکڑا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو تشتری میں رکھ کر پیش کر دیا۔بعد ازاں یہ 190 ملین پاؤنڈ چند ہیروں کی انگوٹھی اور کچھ کنال زمین کے عوض ملک ریاض ہی کو لوٹا دیے گئے۔ یہ کرتب بھی دنیا نے دیکھا۔


اس سارے کھیل میں ایک عورت کا کردار بالکل ایسا ہی طشت از بام ہو چکا ہے جیسا جنرل رانی کا تھا جسے جنرل یحیٰ اپنا مرشد گردانتے تھے۔ یا آنٹی شاہین کے جیسا ہے جنہوں نے جامعہ حفصہ(لال مسجد) کی طالبہ کے سمجھانے پر کہا تھا تم لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تم کو کس فاسفورس بم سے غائب کر دیا جائے گا! اور پھر وہی ہوا.
ان سب باتوں کے باوجود
”ومکرو مکراً کبارا“
ترجمہ۔ ان لوگوں نے مکر و فریب کا بھاری جال پھیلا رکھا ہے۔
یعنی ان کو فاسفورس بم مارنے والا جنرل مشرف تاریخ کا بدنما چہرہ بن گیا ہے اور جنرل یحیٰی کا داغدار ماضی بھی قصہ پارینہ بن چکا ہے۔


تاہم فیض حمیداور اس کے سہولت کار اپنے غدار محلوں میں غداری کی نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔
بہرحال ”واللہ خیر الماکرین“ ترجمہ۔ اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے۔

جمیل احمد

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں