مفتی منیب الرحمن کی بلاجواز معزولی

ضیاء الرحمن ضیاء/مفتی منیب الرحمن گزشتہ انیس سال سے پاکستان کی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئر مین رہے اور انہوں نے رؤیت ہلال کے حوالے سے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ مفتی منیب الرحمن ایک معتدل مزاج شخصیت کے مالک ہیں جس کی وجہ سے تمام مکاتیب فکر میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے عوام و خواص ان کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں۔ رؤیت ہلال کمیٹی کے طویل عرصہ سے سربراہ رہنے کی وجہ سے عوام کو رمضان المبارک اور عید الفطر کے چاند کے حوالے سے ان کے اعلانات سننے کی عادت سی ہو گئی تھی جب سے پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تب سے کمیٹی کے بارے میں شکوک و شبہات پیداکیے جارہے تھے بالخصوص فواد چوہدری کے سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت سنبھالنے کے بعد تو اس کمیٹی کو انتہائی متنازعہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا اور مذہب میں بلا وجہ سائنس کو گھسانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ اس کمیٹی کو بنیادی طور پر دو وجوہات کی بنا پر متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔پہلی وجہ یہ ہے کہ چاند کی رؤیت کے حوالے سے سائنس سے مدد لی جائے اور ایک دائمی کیلنڈر ترتیب دیا جائے اور اسی کے مطابق اسلامی مہینوں کا تعین کیا جائے صرف چاند کی رؤیت پر اعتماد نہ کیا جائے۔ تنازعہ کی دوسری وجہ یہ ہے کہ رؤیت ہلال کمیٹی اور پشاور کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی غیر سرکاری کمیٹی کے درمیان تنازعہ رہا جس کی وجہ سے ملک میں دو عیدیں منائی جاتی رہیں۔ یہ تنازعہ دراصل مرکزی حکومت اور مفتی پولزئی کے درمیان تھا کیونکہ رؤیت ہلال کمیٹی تو مرکزی حکومت کی طرف سے قائم کردہ ہے اس لیے یہ تنازعہ مرکزی حکومت اور پشاور کی کمیٹی کے درمیان ہے لیکن یہاں بھی مرکزی حکومت نے رؤیت ہلال کمیٹی اور مفتی پوپلزئی کے ساتھ ساتھ خود کو تیسرا فریق بنا لیا اور یوں تنازعہ ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئی کمیٹی سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے چاند دیکھے گی جیسے حکومت یا وزیر سائنس و ٹیکنالوجی چاہتے ہیں؟ اگر تو نئی رؤیت ہلال کمیٹی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے کیلنڈر کے مطابق فیصلہ کرے گی تو پھر تو کمیٹی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس صورت میں تو کمیٹی کو ختم ہی کر دینا چاہیے اور تمام مفتیان کرام کے فتاویٰ کے خلاف کیلنڈر پر ہی عمل کرنا چاہیے اور اگر نئی کمیٹی چاند کو دیکھ کر ہی اسلامی مہینوں کا فیصلہ کرے گی تو مفتی منیب الرحمن بھی تو یہی کرتے تھے پھر ان کی معزولی کا کیا جواز ہے؟ اس کے علاوہ دنیا کے تقریبا تمام ممالک میں چاند کی رؤیت ہوتی ہے یعنی چاند کو دیکھ کر ہی فیصلہ کیا جاتا ہے کہیں بھی صرف سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے چاند کے نظر آنے کا نہ آنے کا فیصلہ نہیں کیا جاتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کا یہ حکم ہے کہ چاند کو آنکھوں سے دیکھ کر فیصلہ کیا جائے۔ رؤیت ہلال کمیٹی کے نئے چیئر مین مولانا عبدالخبیر آزاد سے جب حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ شہادتوں پر ہی سارے معاملات طے ہونے ہیں، اصل شرعی اصول شہادت ہی ہے لیکن سائنس سے تعاون ضرور لیا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علماء و مفتیان کرام کا یہ مشترکہ مؤقف ہے کہ رؤیت ہلال کا فیصلہ چاند کو دیکھ کر ہی کیا جائے گا دائمی کیلنڈروں کے ذریعے اس کا فیصلہ شریعت کے اصولوں کے خلاف ہے اسی طرح ترقیافتہ ممالک میں بھی ہلال کمیٹیوں کا وجود اور ان کے ذریعے چاند کی رؤیت کا فیصلہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ مذہب میں سائنس و ٹیکنا لوجی کا استعمال ایک حد تک ہے جب سائنس کی وجہ سے شرعی اصول تبدیل ہونے لگیں تو وہاں سائنس کو مذہب میں داخل نہیں کیا جائے گا۔ رہی بات ملک میں دو عیدوں کی تو اس کے زمہ دار صرف اور صرف پشاور کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی ہیں جنہوں نے اپنی غیر سرکاری کمیٹی قائم کر کے ملک میں چاند کا مسئلہ متنازعہ بنا دیا ہے۔ ان کے علاوہ پورے ملک کے علماء و عوام مفتی منیب الرحمن کی قیادت پر اعتماد کرتے ہیں اور ان کے اعلانات کے مطابق عید مناتے ہیں۔ اصل مسئلہ پشاور کے مفتی صاحب کا پیدا کردہ ہے جو جوں کا توں باقی ہے اور مفتی منیب الرحمن جن کا اس تنازعہ کے پیدا کرنے میں کوئی کردار نہیں انہیں فارغ کر دیا گیا ہے۔ یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئی رؤیت ہلال کمیٹی کے ساتھ مفتی شہاب الدین پوپلزئی مفاہمت کر لیں گے اور اس کمیٹی پر اعتماد کر کے اپنی کمیٹی کو ختم کر دیں گے۔ یقینا نہیں۔ انہوں نے ایک دن پہلے چاند کی رؤیت کا اعلان کرنا ہے تو وہ اب بھی کریں گے، اس لیے مفتی منیب الرحمن کی برطرفی سے اس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور دو عیدوں والا مسئلہ جوں کا توں رہے گا اور ایسے ہی دوسرا مسئلہ چاند دیکھ کر رؤیت کا تعین کرنا یہ بھی مفتیان کرام کے فتاویٰ اور شرعی حکم کی وجہ سے ایسے ہی رہے گا یہاں بھی نئی رؤیت ہلال کمیٹی پرانی روایات پر ہی چلے گی۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ مفتی منیب الرحمن کی برطرفی بلا جواز اور عوامی خواہش کے خلاف ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں