مغرب کی طرف جاؤ گے تو

شاہد جمیل منہاس/ایک دفعہ ایک جگہ میں نے بہت سے لوگوں کا ہجوم دیکھا۔میں نے بھی اُس ہجوم میں داخل ہو کر یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ خدا نخواستہ کوئی شخص حادثے کا شکارتو نہیں ہو گیا۔میں نے دیکھا کہ ایک شخص خوبصورت اور مہنگے لباس میں ملبوس تھا۔ اس کی کلائی پر ہزاروں روپے کی گھڑی تھی۔اور جوتے بھی انتہائی مہنگے تھے لیکن وہ شخص ہلاک ہو چکا تھا۔اور ہاں اس کے کان میں مندری بھی تھی۔اور حیرانی کی بات یہ تھی کہ وہ پیدل چلنے والوں میں سے تھا۔ البتہ ایک شخص نے ایک قیمتی موبائل اٹھایا ہوا تھا جو کہ اس شخص کے ہاتھ سے گراتھا۔اس کی جیب سے چند روپے نقدی بھی برآمد ہوئی۔ اس کے موبائل سے اس کے کسی دوست یا بھائی وغیرہ کا نمبر ڈائل کرنے پر کچھ ہی دیر بعد ایک نوجوان انتہائی خستہ حالت میں اور ایک بزرگ جس کے کپڑے اتنے میلے اور پرانے تھے کہ شاہد کئی ہفتوں سے وہ انھیں تبدیل نہ کر سکا۔ان میں سے ایک اس کا بھائی اور دوسرا اس کا باپ تھاجو غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔بھائی ریڑھی پر روٹیاں خرید کر دوبارہ فروخت کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا ہے اور باپ دن رات کام کر کے کئی بیماریوں کا شکار نظر آ رہا تھا۔ پتہ یہ چلا کہ مرنے والا مہینے میں چند دن کام کرتا تھا۔ اس کے گھر والوں کے مقدر میں اس کی کمائی کا ایک روپیہ بھی نہیں تھا۔ یاد رہے کہ اس کوکسی گاڑی والے نے ٹکر نہیں ماری تھی بلکہ کہانی کچھ اور تھی۔ڈاکٹر ز کے چیک اپ کرنے پر پتہ چلا کہ مرحوم کئی دنوں سے بھوکا تھااور بلڈپریشرانتہائی کم ہو جانے کی وجہ سے چل بسا۔ اپنی نمود و نمائش اور عیاشیوں پہ خرچ کر کے دنیا کے سامنے خود کو امیر ذادوں کی لسٹ میں شامل کرنے اور فضول خواہشات کی تکمیل کرتے کرتے اُس نے خود کو موت کے گھا ٹ اتار دیا۔براعظم ایشیاء اور خاص طور پر پاکستان میں نمود و نمائش انتہا تک پہنچ چکی ہے۔ imported اشیاء کی خریداری اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ خریدار ایک کھاتے پیتے گھرانے سے ہے۔ جبکہ اسلام کبھی بھی اس بات کی اجازات نہیں دیتا۔ اسلام میں میانہ روی پر زور دیا گیا ہے۔ اگر معاشی حالت اچھی ہو تو کنجوسی کو برا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن فضول خرچی کو بدترین نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اگر کسی انسان کے اہل واعیال بھوکے مر رہے ہوں اور وہ فضول خرچ ہونے کے ساتھ ساتھ نمودونمائش کا عادی ہو تو ایسے شخص کے نصیب میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ وہ جہنم کی طرف جانے والے راستے پر گامزن ہے۔ اگر ہم بات کریں موجودہ حالات کی تو ہمارے معاشرے میں نمودونمائش زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ ہم مغرب کی اندھا دھند تقلید میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے غلط طریقے سے دولت اکٹھی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔فیشن پر کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن فیشن وہ جو دیکھنے والوں کواحساس دلائے کہ یہ شخص کنجوس نہیں بلکہ اللہ کے دیے ہوئے میں سے مناسب انداز اور مناسب مقدار میں خود پر خرچ کر رہا ہے۔دیکھنے والا اس شخص کی مثالیں پیش کرے۔کم ظرف لوگوں کی نشانی یہ ہو گی کہ وہ ہمیشہ بے ڈھنگا فیشن کریں گے۔ان کے پاس سے گزرنے والاان کی چال ڈھال اور ان کے لباس سے نہ چاہتے ہوے بھی انھیں کئی القابات سے نوازنے پر مجبور ہو جاتا ہیں۔ اور اپنی اولاد کو ایسے حلیے سے بچنے کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔ لیکن جب پورا معاشرہ ہی نمودونمائش اور دکھاوے کا عادی ہو جائے تو تباہی اور بربادی اس معاشرے اور معیشت کامقدر بن جایا کرتی ہے۔ مغرب کی عوام اگر یہ سب کرتے ہیں تو ان کا مذہب ان کو اس بات سے منع نہیں کرتا لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ مہنگے ترین ملبوسات اور تعیشات کو afford کر سکتے ہیں۔ دیکھاجائے تو ان ممالک میں دکھا وے کا عنصر بہت کم پایا جاتا ہے۔ جو لوگ قیمت دے سکتے ہیں وہی ایسا کرتے ہیں۔ اور اپنا رہن سہن بھی عیاشیوں کی نظر کرتے ہیں کیونکہ غیر مذ ہب میں جنت اور جہنم کا کوئی concept نہیں ہے۔
سورج ہمیں روز یہ پیغام دیتا ہے
مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤگے
لیکن ایک بات طے ہے کہ اچھے لباس کے ساتھ خالی پیٹ کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ اس ملک کے باسیو ں کو درحقیقت اپنے آ ُپ میں رہنا ہو گا۔ ہمیں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے ہوں گے۔اللہ کے دیے ہوے پر مطمئن ہونا پڑے گا۔ ورنہ دیکھنے والا موت کی وجہ جان کر پشیمان ہو گا۔کہ بظاہر کروڑ پتی نظر آ نے والا شخص بھوک کی وجہ سے مر گیا۔خدا را مغرب کی اندھی تقلید کو چھور کر امن پسند مذہب اسلام کی روایات اپنائیں۔ اسلام وہ مذہب ہے جس کی صرف کسی ایک خوبی کو دیکھ کر ہزاروں کفار کلمہ حق پڑھ کر مسلمان ہونے پر مجبور ہو گئے اور ہم تو الحمداللہ پیدا ہی مسلمان گھرانوں میں ہوئے ہیں۔یاد رہے کہ گھر کے سربراہوں کی عیاشیوں اور نمود و نمائش سے خاندان غربت کی چکی میں پس جایا کرتے ہیں اور کسی ریاست کے سربراہوں یعنی حکمرانوں کی عیا شیوں اور نمود و نمائش سے ان کی رعایا روٹی کے ایک ایک نوالے کو ترس جایا کرتی ہے۔تھر کے ریگستانوں میں بسنے والے معصوم بچوں کی آہ وپکار ہماری غیرت کا امتحان تھااور ہے۔اب نتیجے کے دن معلوم ہو گا کہ ہم اس امتحان میں پاس ہوئے یا فیل۔ان حالات کے ہوتے ہوئے بھی نہ جانے اُس وقت ہماری عزت نفس کیوں سو جاتی ہے جب غیر ملکی صدر یا وزیر اعظم کے آنے پر رنگ برنگے پھولوں کے گملے ائرپورٹ سے ملحقہ سڑکو ں پر رکھ دئے جاتے ہیں اور ان کے جانے کے فوراً بعد اٹھا لیے جاتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں