معروف سماجی شخصیت گلزادہ خان یوسفزئی

راقم طویل عرصہ سے برصغیر اور بالخصوص خطہ پوٹھوہارکی علاقائی تاریخ کا تحقیقی بنیادوں پر کھوج لگانے میں مصروف ہے گاؤں اراضی خاص کی مذہبی وعلمی شخصیت اور زیر تصنیف تاریخ کی جامع کتاب تذکرۃ العباد کے مصنف جناب قاضی عبدالرحمن فاروقی صاحب یونین کونسل بشندوٹ کے نواحی گاؤں موضع بسنتہ آستانہ عالیہ حویلی سیداں کے رہائشی سعادت خاندان کے چشم وچراغ اورعلم الانساب میں (Phd) کی ڈگری حاصل کرنے والی مذہبی شخصیت سیدبدرالاسلام گیلانی اور محمد عمران ایڈووکیٹ بھی اس سفر میں میرے ہمنوا ہیں۔ اس سلسلے میں ہم تحصیل کلرسیداں ٹیکسلا گوجرخان اور کہوٹہ کے مختلف تاریخی دیہات کے دورے جاری رکھے ہوئے ہیں سب سے خاص بات یہ کہ ان تحقیقی دوروں کے دوران متعلقہ دیہات کی بزرگ شخصیات سے بھی ملاقات کا شرف حاصل رہا اور علاقائی تاریخ کے بارے میں بزرگوں کی زبانی واقعات سن کر معلومات میں مذید اضافہ ہوا۔ گزشتہ ہفتے اسی سلسلے میں سیدبدرالسلام گیلانی کے ہمراہ ہفتہ روزہ پنڈی پوسٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے یونین کونسل غزن آباد کی مشہور سیاسی وسماجی شخصیت جناب گلزادہ خان یوسف زئی سے انکی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور انکے خاندانی پس منظر کے حوالے سے جاننے کا موقعہ ملا۔جب ہم دن کے وقت انکے گھر پہنچے تو انہوں نے اپنی روایتی مہمان نوازی کے انداز میں ہمیں خوش آمدید کہا اور خاطر مدارت کی بعدازاں سب سے پہلے انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کے حوالے سے گفتگو کا آغاز کیا انکے جدامجد غزن خان یوسف زئی 1860میں ضلع صوابی سے نقل مکانی کرکے اس علاقے میں آکر آباد ہوئے تھے چونکہ اس جگہ انہوں نے سب پہلے سکونت اختیار کی تھی اس لیے انکے نام کی نسبت سے گاؤں کا نام غزن آباد ہے غزن آباد میں 1050ایکڑ زرعی زمین خریدی یہاں اس دور میں چنار کے درخت اور باغات اور چشمے تھے اس لیے اس علاقے کا نام باغ بوٹا بھی پڑگیا وہ انگریزی دور اقتدار میں محکمہ پولیس میں ایس پی کے عہدے پر فائز رہے۔غزن خان کے دو بیٹے تھے ایک کا نام محمدابراہیم خان یوسف زئی اور دوسرے محمد خان یوسف زئی تھا،محمد ابرہیم خان کے پانچ بیٹے تھے جن میں غلام حیدر،فتح خان، محمد حیات خان، موسی خان اور عبدالعزیز خان شامل ہیں ان میں سے بڑے بیٹے غلام حیدر خان اور عبدالعزیز خان تقسیم ہند کیوقت علاقے کے ذیلدار تھے محمد خان کے بیٹے ظفرمحمدخان تھے جو خان قمرخان کے والد تھے اسکے علاؤہ محمد حیات خان اور گلزادہ خان کے والد موسی خان 1922میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انڈیا سے گریجویشن کی ڈگریاں حاصلِ کی تھیں اور انہیں 7زبانوں پر عبور حاصل تھا انہوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پابندسلاسل بھی رہے غزن آباد کے بانی غزن خان یوسف زئی1867میں دنیا فانی سے کوچ کرگئے تھے۔گلزادہ خان کے خاندان کا شمارعلاقے کے تعلیم یافتہ اورمذہبی گھرانوں میں ہوتا ہے بالخصوص خدمت خلق کے حوالے سے انکی بیش بہا خدمات کی فہرست خاصی طویل ہے جبکہ پاکستان کے عظیم ایٹمی سائنسدان گل مبارک خان المعروف جی ایم کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا جو ڈاکٹر عبد القدیر خان مرحوم کے ہم پلک سائنسدان تھے۔گفتگو کے دوران گلزادہ خان کا کہنا تھا کہ انسانیت کی خدمت خدا کی توفیق اورخوشنودی سے وابستہ ہے رب نے انسانی فلاح کیلیے ہمارا انتخاب کیا یہ ہمارے خاندان کی خوش بختی ہے۔ گلزادہ خان کا خاندان غزن آباد میں وسیع رکھ اور زرعی زمین کے مالک ہیں محمد ابرہیم کے بیٹے غلام حیدر خان ذیلدارجبکہ فتح خان تقسیم ہند سے قبل راولپنڈی میں جج کے عہدہ پر تعینات رہے عبد العزیز خان بھی علاقے کے ذیلدار رہ چکے ہیں اس دور میں بشندوٹ تا سموٹ تک کے وسیع وعریض زمینی رقبہ کے تین ذیلدار مقرر کیے گئے تھے جن میں بشندوٹ کے راجہ محمد خان سموٹ کے میراں بخش جبکہ گف و غزن آباد کے ذیلدار عبدالعزیز خان تھے گلزادہ خان کے خاندان نے جہاں فلاح انسانیت کے حوالے سے خدمات پیش کی ہیں وہاں انہوں نے دین کی نشرو اشاعت پر بھی اپنی تمام تر توانائیاں اور مالی وسائل وقف کر رکھے ہیں ادارہ ملت اسلامیہ کے نام سے بچیوں کا مدرسہ اور غزن آباد میں ویلفیئر سوسائٹی کا قیام بھی اسی خاندان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اسی سوسائٹی کے پلیٹ فارم سے مستحق غریب اور یتیم بچوں کی مالی امداد کی جاتی ہے اور غزن آباد کے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو یونیفارم اور کتابیں مہیا کی جاتی ہیں گلزادہ خان یوسف زئی نے1970میں گورنمنٹ گورڈن کالج راولپنڈی سے گریجویٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور وہ زندگی کی 73بہاریں دیکھ چکے ہیں انکے بقول بہت سی بیماریوں نے انہیں گھیر رکھا ہے تاہم اسکے باوجود وہ بظاہر چست وتوانا دکھائی دیتے ہیں اور یاداشت کا البم بھی قابل رشک ہے انکے تین بیٹے رضا احمد خان رضوان احمد خان اور شرجیل احمد خان اعلی تعلیم یافتہ ہیں جبکہ انکے بیٹے رضا احمد خان نےPhd کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔کسی انسان کے دکھ درد کو بانٹنا اور کسی کے زخموں پر مرہم رکھنا بلاشبہ ہر انسان کے بس کی بات نہیں دنیا میں لالچی مفاد پرست اور خود غرض انسانوں کی بھی کمی نہیں تاہم اس نفسانفسی کے عالم میں گلزادہ خان کے خاندان کی فلاح انسانیت کے حوالے سے جاری خدمات پر ہم انکو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ہرصاحب استطاعت دل میں انسانیت کی خدمت کا جذبے لیے عملی طور پر غریب کی دادرسی کرنے پرمیدان عمل میں کودجائے اور اگر ہم ایک دوسرے کے شریک غم بن جائیں تو شاید ہمارے معاشرے میں ضرورت مند اور غریب انسانوں کی گنجائش باقی نہ رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں