معذور افراد کی آواز ، ایس طاہرہ جمیل

معزور افراد کی آواز
کسی بھی مسلے کو ایوان بالا تک پہنچانے کا بہترین زریعہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ہے یا عوامی نمائندگان ۔ہم حتی المقدور کوشش کر کے اپنی آواز آہکی وساطت سے معزز ایوان تک ہہنچانے کے خواہشمند ہیں ۔پرنٹ و الیکٹرانک میڈیاہماری امیدوں کا مرکز ہے، اور ایوان بالاجہاں سے انصاف، قانون اور بہتری کی روشنی پورے پنجاب میں ہی نہیں پورے ملک میں پھیل سکتی ہے۔
اسی یقین کے ساتھ تحریکِ بحالیِ معذوراں پاکستان کی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے چند سطور آپ کی خدمت میں پیش کر رہی ہوں۔
ہم وہ لوگ ہیں جنہیں زندگی نے جسمانی کمزوری دی، مگر ارادوں میں کبھی کمی نہ آئی۔
ہم وہ معذور شہری ہیں جو برسوں سے اپنے حق کے لیے دستک دے رہے ہیں،
مگر فائلوں اور اعلانات کے شور میں ہماری آواز دب گئی۔
ہم نے صبر کیا، ہم نے انتظار کیا،
مگر گزرتے وقت اور حالات نے یہ احساس دلایا کہ ہم خود نہ بولے تو شاید کوئی نہیں بولے گا۔
پنجاب میں آج تک معذور افراد کی صحیح گنتی اور مکمل رجسٹریشن نہیں ہو سکی۔
یہ اس لیے نہیں کہ معذور افراد کم ہیں،بلکہ اس لیے کہ رجسٹریشن، تصدیق، اور “گریڈیشن” کا نظام سہولت سے خالی ہے۔
دیہات اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے ہزاروں بہن بھائی آج بھی ریکارڈ سے غائب ہیں،
یوں جیسے وہ اس نظام کا حصہ ہی نہیں۔ہمارے مسائل بہت ہیں ، تعلیم، روزگار، میڈیکل سہولت، قانونی معاونت، اور معاشرتی قبولیت
مگر ان سب کی بنیاد ایک ہی ہے: ریاستی توجہ کی کمی۔
ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر یہ آواز ہمارے معاشرے میں ہمارے منتخب کردہ نمائندے مخلصی اوردرد دل سے بلند کریں توکوئ شک نہیں کہ ہمارے حصے کا اندھیرا بہت جلد کم ہو سکتا ہے۔
ہم آپ کو وہ آئینہ دکھا رہے ہیں جس میں پنجاب کے معذور افراد کی اصل حالت نظر آتی ہے۔
ہم نہ مدد مانگتے ہیں، نہ ترس،
ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ہمیں وہ جگہ دی جائے جہاں ہم معزورشہری نہیں، برابر کے شہری کہلائیں،ہماری عزت نفس مجروح نہ ہو،ہمارے حقوق کو ہمارا حق سمجھتے ہوئے دیا جائے ۔۔یہ تمہید ہمارے دکھوں کا خلاصہ ہے،
اور آگے جو کچھ پیش کیا جائے گا وہ محض مطالبے نہیں بلکہ امید کی دستاویز ہے ۔
ایسی امید جسے ارباب اقتدار تک پہنچانے کے لئے پرنٹ میڈیا کا سہارا لیا جا رہاہے۔
مسئلہ نمبر 1
معذور افراد کی درست گنتی اور رجسٹریشن کا سنگین پنجاب میں افراد کی مکمل اور رجسٹریشن نہیں ا سکی مردم شماری کے مطابق پنجاب میں معذور افراد کی تعداد تقریباً 44 لاکھ 87 ہزار 038 ہے، لیکن نادرا کے اعداد و شمار کے مطابق 3 لاکھ 81 ہزار 558 افراد نے معذوری کارڈ یا سرٹیفکیٹ بنوایا ہے۔ یہ فرق پچھلی حکومت کی بہت بڑی غفلت اور لاپرواہی کو ظاہر کرتا ہے۔
اس کی پہلی بڑی وجہ یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے معذور افراد کے لیے کوئی مستقل مالی وظیفہ یا باقاعدہ امدادی نظام قائم نہیں کیا۔ جب معذور بھائیوں کو یہ محسوس ہوا کہ سرٹیفکیٹ بنوانے سے انہیں کوئی مالی سہولت یا مدد نہیں ملتی، تو بہت سے لوگ رجسٹریشن کے عمل سے گریز کرنے لگے۔ ان کے دلوں میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ “جنہوں نے سرٹیفکیٹ بنوایا، انہیں کیا ملا؟” یہی بداعتمادی سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی۔
دوسری بڑی وجہ رجسٹریشن کا انتہائی پیچیدہ اور غیر واضح نظام ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومتِ پنجاب نے رجسٹریشن کے لیے ایک آن لائن ایپ متعارف کرائی ہے، مگر اس ایپ میں ہدایات واضح نہیں۔ مثال کے طور پر ای میل ایڈریس شناختی کارڈ پر بنانا ہوتا ہے مثال کے طور پر 3640512345678@gmail.com اور پاس ورڈ مخصوص انداز میں داخل کرنا لازم 12345678، لیکن ایپ میں یہ وضاحت کہیں درج نہیں۔ نتیجہ یہ کہ عام معذور افراد، جو ٹیکنالوجی سے زیادہ واقف نہیں، اپنا ذاتی گوگل اکاؤنٹ والا ای میل اور اپنی مرضی کا پاسورڈ درج کر دیتے ہیں تو متعلقہ افسران معدوری سرٹیفکیٹ کی ائی ڈی لاگ ان نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے تصدیق کا نظام رک جاتا ہے اور ان کی درخواستیں آگے نہیں بڑھ پاتیں۔
یہ ایک مثال ہے اس قسم کی اٹھ سے زائد غلطیاں اور ٹیکنیکل پچیدیاں ایپ میں موجود ہیں
یہ بھی افسوس ناک حقیقت ہے کہ پنجاب حکومت کی اپنی پالیسی میں کہیں نہیں لکھا کہ رجسٹریشن کا عمل پرائیویٹ دکانوں کے ذریعے کیا جائے، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ بیت المال کے مقامی ملازمین نے اس عمل کو پرائیویٹ دکانوں کے سپرد کر رکھا ہے۔ ان دکانوں پر ایک ایک صفحے کی فیس ڈیڑھ سو روپے تک وصول کی جا رہی ہے۔ اس طرح معذور افراد کو سہولت دینے کے بجائے انہیں مالی بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔ یہ عمل پنجاب حکومت کے اپنے منشور اور 2022 کے نافذ کردہ قانون “Punjab Empowerment of Persons with Disabilities Act, 2022” کی صریح خلاف ورزی ہے، جس کے تحت حکومت پر لازم ہے کہ معذور افراد کو باعزت اور مفت سہولیات فراہم کرے۔
ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پنجاب حکومت ریاستی ٹیمیں مقرر کرے جو معذور افراد کے معذوری سرٹیفکیٹ کے لیے رجسٹریشن کریں اور پھر میڈیکل ہاسپٹل سے کروا کر ان کو معذوری سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے اور یہ ٹی معذور افراد کے معاون آلات کی بھی رجسٹریشن کریں یہ ریاستی ٹیممیں پورے پنجاب کے ہر علاقے میں جائیں
مسئلہ نمبر 2
میڈیکل کے لیے ہسپتال پہنچنے میں دشواری
کئی معذور بھائی ایسے ہیں جو خود اپنے سہارے بیٹھ نہیں سکتے۔ ان کے لیے عام ٹرانسپورٹ جیسے رکشہ، موٹر سائیکل یا ویگن میں سفر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ بھائی جب میڈیکل کے لیے ہسپتال جانا چاہتے ہیں تو سب سے بڑی رکاوٹ سواری بن جاتی ہے۔
ایسے افراد کے لیے ایمبولینس ہی واحد ذریعہ ہے، مگر ایمبولینس کا کرایہ اتنا زیادہ ہے کہ وہ اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔ بعض کو اسپتال تک پہنچنے کے لیے کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے، اور بعض اوقات وہ مالی مجبوری کی وجہ سے علاج یا معذوری کے سرٹیفکیٹ کے عمل سے ہی محروم رہ جاتے ہیں۔
یہ مسئلہ خاص طور پر دیہات اور دور دراز علاقوں میں زیادہ سنگین ہے، جہاں نہ تو مناسب سواری میسر ہے اور نہ ہی کوئی ایسا نظام جو ان بھائیوں کو اسپتال تک پہنچنے میں مدد دے سکے۔
لہٰذا ایسے معذور افراد کے لیے ضروری ہے کہ حکومت خصوصی طور پر 1122 کے تحت مفت ایمبولینس سہولت فراہم کرے، جو معذور افراد کو میڈیکل رپورٹ کے لیے گھر سے ہسپتال لے جائے اور پھر واپتی گھر پہنچائے تاکہ وہ آسانی اور عزت کے ساتھ اپنے میڈیکل معائنے کے لیے اسپتال جا سکیں۔ اس طرح کوئی بھی بھائی اپنی معذوری کے سرٹیفکیٹ یا علاج سے محروم نہیں رہے گا۔
مسئلہ نمبر 3
سماعت سے محروم افراد کے لیے اے۔بی۔آر (ABR) ٹیسٹ کی سہولت کا فقدان
پنجاب کے بیشتر اضلاع میں سماعت سے محروم افراد کے لیے اے۔بی۔آر (Auditory Brainstem Response) ٹیسٹ کی سرکاری سہولت موجود نہیں ہے۔ یہ وہ بنیادی ٹیسٹ ہے جس کے بغیر کسی شخص کو سماعت کی معذوری کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جا سکتا۔
یہ صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ جو افراد سننے کی صلاحیت سے محروم ہیں، وہ اپنے معذوری سرٹیفکیٹ کے حصول سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس وقت یہ سہولت صرف چند بڑے شہروں جیسے لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان تک محدود ہے، جبکہ باقی اضلاع کے معذور افراد کو طویل فاصلہ طے کر کے جانا پڑتا ہے۔
سرکاری سطح پر سہولت نہ ہونے کے باعث لوگوں کو پرائیویٹ لیبارٹریز سے یہ ٹیسٹ کروانا پڑتا ہے، جہاں اس کی لاگت پانچ ہزار سے دس ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ سفر، کرایے اور ساتھ جانے والے مددگار افراد کے اخراجات ملا کر یہ خرچ آٹھ سے دس ہزار روپے تک پہنچ جاتا ہے، جو اکثر معذور افراد کی استطاعت سے باہر ہے۔
یہ ایک ایسی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے بے شمار بہرے یا کم سننے والے افراد سرٹیفکیٹ نہیں بنوا پاتے اور حکومتی سہولتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر ضلع میں سرکاری سطح پر اے۔بی۔آر ٹیسٹ کی سہولت قائم کی جائے یا کم از کم ڈویژن کی سطح پر ٹیچنگ ہسپتالوں میں فری ٹیسٹ کے سہولت فراہم کی جائے، تاکہ کسی بھی معذور شخص کو اپنی معذوری ثابت کرنے کے لیے مالی یا سفری اذیت سے نہ گزرنا پڑے۔
مسئلہ نمبر 4
“فِٹ ٹو ورک” قرار دیے گئے معذور افراد کا حکومتی پروگراموں سے محروم رہ جانا
پنجاب حکومت نے “ہمت کارڈ” پروگرام کے تحت معذور افراد کو مالی امداد فراہم کی ہے، مگر اس فہرست سے وہ تمام افراد نکال دیے گئے ہیں جن کے معذوری سرٹیفکیٹ پر “فِٹ ٹو ورک” لکھا ہوا ہے۔ یہ طرزِ عمل انصاف اور حقیقت دونوں کے خلاف ہے۔
“فِٹ ٹو ورک” لکھے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ شخص تندرست ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ محدود حالات میں یا مخصوص نوعیت کا ہلکا کام کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے افراد کے لیے عملی روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عام دفاتر، فیکٹریاں اور ادارے انہیں ملازمت دینے سے گریز کرتے ہیں، اور وہ اکثر ساری زندگی بے روزگار رہ جاتے ہیں۔
اگر کہیں کام مل بھی جائے تو نارمل لوگوں کی نسبت کم اجرت دی جاتی ہے یہ امتیازی سلوک ناقابل برداشت ہے
یہ بھی ایک عجیب تضاد ہے کہ حکومت پنجاب اپنے سرکاری ملازمین میں شامل معذور افراد کو تو تنخوا کے علاوہ ماہانہ معذوری الاؤنس دیتی ہے، حالانکہ ان کے سرٹیفکیٹ پر بھی “فِٹ ٹو ورک” لکھا ہوتا ہے۔ مگر دوسری طرف یہی حیثیت رکھنے والے بے روزگار معذور افراد تمام حکومتی امداد، وظیفے اور سکیموں سے محروم ہیں۔
اگر کوئی شخص مالی طور پر مستحکم ہے، ملازمت کرتا ہے یا جائیداد رکھتا ہے، تو بے شک اسے امداد کی ضرورت نہیں۔ لیکن جو معذور بھائی بے روزگار ہیں، انہیں یکسر نظرانداز کر دینا سراسر ناانصافی ہے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت پنجاب “فِٹ ٹو ورک” معذور افراد کے لیے علیحدہ امدادی پروگرام تشکیل دے، تاکہ وہ بھی باعزت طریقے سے زندگی گزار سکیں اور اپنے محدود حالات کے باوجود کسی حکومتی سہارے سے محروم نہ رہیں۔
مسئلہ نمبر 5
اپنا خیال رکھنے سے محروم، بستر نشین معذور افراد کے لیے مددگار فنڈ کا قیام
ہمت کارڈ اسکیم کے تحت حکومت پنجاب نے شدید معذور افراد کو ماہانہ ساڑھے تین ہزار روپے فراہم کرنا شروع کیا ہے۔ یہ قدم اپنی جگہ قابلِ تعریف ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ رقم ایسے افراد کے لیے ناکافی ہے جو مکمل طور پر دوسروں کے سہارے زندگی گزار رہے ہیں۔یہ وہ بھائی اور بہنیں ہیں جو چارپائی پر پڑے ہیں، خود کھانا نہیں کھا سکتے، خود پانی نہیں پی سکتے، اور اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہمیشہ کسی نہ کسی مددگار کے محتاج رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے گھر والے بھی غربت یا مجبوری کے باعث ان پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے پاتے۔
ایسے افراد کے لیے حکومت کو ہمت کارڈ کے علاوہ ایک “مددگار فنڈ” قائم کرنا چاہیے۔ اس فنڈ کے ذریعے بستر نشین معذور افراد کو اتنی رقم دی جائے کہ وہ اپنے کسی پڑوسی، رشتہ دار یا گھر کے فرد کو معمولی اجرت دے کر اپنی دیکھ بھال کے لیے مدد حاصل کر سکیں۔
یہ رقم کسی عیاشی کے لیے نہیں بلکہ ان کی بنیادی انسانی ضرورت ہے۔ ایک بستر پر پڑا ہوا انسان سب سے پہلے عزت چاہتا ہے، پھر سہارا۔ یہ سہارا کسی ہاتھ، کسی دلاسے، کسی خدمت سے ملتا ہے۔
خصوصاً خواتین معذور افراد کے مسائل زیادہ نازک اور حساس ہیں۔ اکثر وہ بے بسی کے عالم میں اپنی ضرورت بھی بیان نہیں کر پاتیں۔ ایسے میں اگر حکومت ان کے لیے مددگار فنڈ فراہم کرے تو نہ صرف ان کی زندگی آسان ہوگی بلکہ ان کی عزتِ نفس بھی محفوظ رہے گی۔یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ حکومت پنجاب اس مسئلے پر فوری غور کرے اور بستر نشین معذور افراد کے لیے مستقل بنیادوں پر مددگار سہولت کا بندوبست کرے۔
مسئلہ نمبر 6
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے معذور طلبہ کے لیے تعلیمی و سفری اخراجات میں رعایت
ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے معذور نوجوان موجود ہیں جن کی معذوریاں بظاہر معمولی نوعیت کی ہیں، مگر حقیقت میں یہی معذوریاں ان کی تعلیم کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ یہ وہ ہونہار طلبہ ہیں جو پڑھنا چاہتے ہیں، کچھ بننا چاہتے ہیں، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں، مگر غربت اور سفری مشکلات ان کے خواب توڑ دیتی ہیں۔
جب یہ طلبہ کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں تو سب سے بڑی دیوار اخراجات بن جاتی ہے۔ فیس، کتابیں، ہاسٹل کا کرایہ، روزانہ کا آمد و رفت کا خرچ — یہ سب کچھ ان کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ زیادہ تر معذور طلبہ عام پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ ان کے لیے موزوں نہیں ہوتی۔ لمبے فاصلے، بسوں کی بھاگ دوڑ، اور جسمانی مشقت ان کے لیے ایک اذیت بن جاتی ہے۔
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بے شمار قابل اور محنتی معذور طلبہ تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں، ان کے خواب دم توڑ دیتے ہیں، اور وہ ساری عمر اس احساسِ محرومی میں گزار دیتے ہیں کہ اگر سہولتیں ملتیں تو وہ بھی کسی مقام پر پہنچ سکتے تھے۔
اس لیے حکومت پنجاب سے گزارش ہے کہ ایسے معذور طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کو مکمل طور پر مفت یا نہایت کم فیس پر دستیاب کیا جائے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے لیے خصوصی فنڈ قائم کیا جائے تاکہ معذور طلبہ سے فیس نہ لی جائے، اور جنہیں سفر میں دشواری ہے، ان کے لیے ماہانہ سفری وظیفہ یا ہاسٹل میں مفت رہائش کا انتظام کیا جائے۔
یہ قدم نہ صرف ان کی تعلیم کا دروازہ کھولے گا بلکہ معاشرے کو باعزت اور باصلاحیت شہری بھی فراہم کرے گا۔ کیونکہ جو قوم اپنے معذور بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتی، وہ خود اپنی ترقی کے دروازے بند کر لیتی ہے۔
مسئلہ نمبر 7
معذور افراد کے لیے تین فیصد ملازمت کوٹے پر مکمل عملدرآمد نہ ہونا
پنجاب میں معذور افراد کے لیے ملازمتوں میں تین فیصد کوٹے کا قانون تو موجود ہے، مگر اس پر مکمل عمل نہیں ہو رہا۔ کئی محکموں میں یہ آسامیاں یا تو خالی رکھی جاتی ہیں یا غیر معذور افراد سے پُر کر دی جاتی ہیں۔ پرائیویٹ اداروں میں تو اس قانون پر عملدرآمد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے معذور نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود روزگار سے محروم ہیں۔ اگر حکومت واقعی خود انحصاری چاہتی ہے تو اس کوٹے پر مؤثر عمل یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ معذور افراد کو بھی معاشی طور پر باعزت مقام مل سکے۔
مسئلہ نمبر 8
معذور ملازمین کی مستقل تقرری میں رکاوٹ — ہر محکمے میں ناانصافی، محکمہ ہیلتھ ویلفیئر پاپولیشن کی مثال
پنجاب کے بیشتر سرکاری محکموں میں معذور افراد طویل عرصے سے عارضی بنیادوں پر ملازمت کر رہے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جسمانی کمزوری کے باوجود عزم، دیانت اور ہمت سے سرکاری نظام کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔
ان کی کارکردگی کسی عام ملازم سے کم نہیں، بلکہ اکثر ان سے بڑھ کر ہوتی ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اتنی محنت، قربانی اور خدمت کے باوجود بھی حکومت انہیں آج تک “مستقل” تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔
یہ ملازمین ہر سال کنٹریکٹ کی تجدید کے عمل سے گزرتے ہیں، نئی فائلوں، منظوریوں اور دستخطوں کے مراحل طے کرتے ہیں،اور ہر بار اپنی عزتِ نفس کو سرکاری میزوں پر جھکانا پڑتا ہے۔
پھر بھی یہ معذور ملازمین اپنی تمام تر ذلت، بے توقیری اور تھکن کے باوجوداپنی ڈیوٹی پوری امانت داری سے ادا کر رہے ہیں۔انہوں نے ریاست کے ساتھ وفاداری نبھائی ہے، اور ان کی وفاداری سورج کی روشنی کی طرح عیاں ہےمگر ریاست اب تک ان کے ساتھ وفاداری نہیں نبھا سکی۔
سب سے زیادہ افسوسناک مثال محکمہ ہیلتھ ویلفیئر پاپولیشن کی ہے،
جہاں تقرری ناموں میں باقاعدہ یہ جملہ لکھا جاتا ہے کہ
“یہ ملازم مستقل نہیں ہو سکتا”۔
یہ الفاظ نہ صرف ایک شخص کی توہین ہیں بلکہ پورے معذور طبقے کے وقار پر وار ہیں۔
یہ روش آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 25 اور 27 کی صریح خلاف ورزی ہے۔
جو تمام شہریوں کو برابری اور روزگار میں امتیاز سے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔
اب حکومتِ پنجاب سے یہی امید ہے کہ وہ خدارا ان باوفا اور محنتی معذور ملازمین کو ان کا جائز حق دے۔انہیں مستقل کر کے نہ صرف انصاف کیا جائے بلکہ یہ تسلیم بھی کیا جائے کہ معذوری جرم نہیں، اور خدمت کبھی عارضی نہیں ہوتی۔
مسئلہ نمبر 9
دور دراز تعیناتی سے معذور ملازمین کی مشکلات
معذور افراد کو بڑی محنت، دعاؤں اور سالوں کی جدوجہد کے بعد جب ملازمت ملتی ہے تو خوشی کے لمحات ان کے لیے امید کی نئی کرن بن جاتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ان کو ان کے گھروں سے بہت دور، دشوار گزار علاقوں میں تعینات کر دیا جاتا ہے۔ یہ تعیناتی ان کے لیے خوشی کے بجائے اذیت بن جاتی ہے۔
ایسے افراد کے لیے روزانہ سفر کرنا نہ صرف جسمانی طور پر دشوار ہوتا ہے بلکہ ان کی مالی حالت بھی اسے برداشت نہیں کر پاتی۔ مسلسل سفر، تھکن اور وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ اکثر ڈیوٹی پر بروقت نہیں پہنچ پاتے یا مکمل توجہ سے اپنے فرائض ادا نہیں کر پاتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے، وہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اور حکومت کے اپنے اداروں کو بھی اس کا نقصان ہوتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت معذور ملازمین کے لیے تعیناتی کے اصولوں میں نرمی پیدا کرے۔ انہیں ان کے رہائشی مقام یا ضلع کے قریب ترین دفتر یا ادارے میں تعینات کیا جائے، تاکہ وہ نہ صرف اطمینانِ دل کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں بلکہ ایک باعزت، پُرسکون اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔
یہ سہولت دینا حکومت کی مہربانی نہیں، بلکہ ان افراد کا بنیادی حق ہے جنہوں نے مشکلات کے باوجود تعلیم حاصل کی، قابلیت ثابت کی، اور آج بھی ریاست کے ساتھ وفاداری سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
مسلہ نمبر 10
معذور افراد کے لیے روزگار کے حصول میں قرض کی سہولت کا فقدان معذور افراد کو روزگار کے مواقع ویسے ہی محدود ملتے ہیں، اس لیے بہت سے پڑھے لکھے معذور بھائی خود روزگار کے لیے چھوٹے کاروبار یا ہنر کے ذریعے اپنا مستقبل سنوارنا چاہتے ہیں۔ مگر سب سے بڑی رکاوٹ سرمایہ کی کمی ہے۔ بینک اور ادارے ان سے ضمانتیں، سیکیورٹی اور لمبا طریقہ کار مانگتے ہیں جو وہ پورا نہیں کر پاتے۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت معذور افراد کے لیے بلا سود قرضوں کا ایک مستقل اور باقاعدہ نظام قائم کرے، جہاں وہ آسان شرائط پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔ یہ قرض امداد نہیں بلکہ خود انحصاری کی طرف پہلا قدم ہوگا، جس سے وہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے بہتر زندگی گزار سکیں گے۔
مسئلہ نمبر 11
معذور افراد کے لیے چھوٹے کاروبار میں بجلی کے کمرشل میٹر کا مسئلہ
معذور افراد نقل و حرکت میں دشواری کے باعث اپنے گھر یا محلے کے قریب ہی روزگار کا کوئی چھوٹا کاروبار کرنا چاہتے ہیں، جیسے کپڑے سلائی، موبائل مرمت، اسٹیشنری، یا گھریلو دستکاری وغیرہ۔ مگر جب وہ کاروبار شروع کرنے لگتے ہیں تو واپڈا کے عملے کی طرف سے ان پر کمرشل بجلی میٹر لگوانے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے۔
کمرشل میٹر نہ صرف لگوانے میں مہنگا ہے بلکہ اس کا بل بھی عام صارف کے مقابلے میں کہیں زیادہ آتا ہے، جو ایک معذور شخص کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ یوں وہ کاروبار شروع کرنے سے پہلے ہی ہمت ہار بیٹھتا ہے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت ایسے معذور افراد کو اجازت دے کہ وہ گھریلو میٹر ہی کے ذریعے اپنی بجلی استعمال کر سکیں، بشرطِ یہ کہ وہ کاروبار چھوٹے پیمانے پر ہو اور گھر یا بیٹھک تک محدود ہو۔ یہ سہولت نہ صرف ان کے لیے معاشی آسانی پیدا کرے گی بلکہ ان کو خود روزگاری کے قابل بنائے گی۔
مسئلہ نمبر 12
معذور افراد کی شادی کے اخراجات اور سماجی تنہائی کا مسلہ معذور افراد میں سے بہت سے ایسے بھائی اور بہنیں ہیں جو ہمت کر کے چھوٹے موٹے کاروبار، دکان یا کسی ہنر کے ذریعے تھوڑی بہت آمدنی حاصل کر لیتے ہیں۔ مگر جب بات شادی کے اخراجات کی آتی ہے تو ان کی ساری محنت بے بس ہو جاتی ہے۔حقائق یہ ہیں کہ شادی کے معمولی انتظامات، جہیز، کرایہ، اور دیگر رسم و رواج کے اخراجات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ایک عام معذور شخص کی زندگی بھر کی کمائی بھی اس کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے بہت سے معذور بھائی بہنیں جوانی اور بڑھاپے تک غیر شادی شدہ رہ جاتے ہیں اور سماجی تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پنجاب معذور افراد کی شادی کے لیے خصوصی امدادی فنڈ قائم کرے، جس سے ایسے مستحق افراد کو ایک بار امداد دی جائے تاکہ وہ عزت کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی شروع کر سکیں۔ یہ اقدام نہ صرف ان کی سماجی بحالی کا ذریعہ ہوگا بلکہ معاشرتی سطح پر ان کے اعتماد اور وقار میں اضافہ کرے گا۔
مسئلہ نمبر 13
رمضان راشن پروگرام اور حکومتی رعایتی اسکیموں سے معذور افراد کی محرومی
حکومت پنجاب کی زیادہ تر فلاحی اسکیمیں جیسے رمضان راشن پروگرام، سستا آٹا اسکیم، احساس کفالت، اور دیگر امدادی منصوبے عموماً “خاندان کی بنیاد پر” جاری کیے جاتے ہیں۔ یعنی جس گھرانے کا سربراہ رجسٹرڈ ہے، اسی کے نام پر امداد ملتی ہے۔
یہ نظام بظاہر درست لگتا ہے مگر اس نے ایک بڑی ناانصافی کو جنم دیا ہے کیونکہ اکثر معذور افراد غیر شادی شدہ ہیں، یا اپنے گھرانے میں الگ حیثیت نہیں رکھتے۔ ان کے نام پر کوئی خاندان رجسٹرڈ نہیں ہوتا، لہٰذا وہ ان تمام سہولتوں سے خودکار طور پر باہر کر دیے جاتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس نہ کمائی کا ذریعہ ہے، نہ گھر کا سہارا، اور نہ ہی سماجی حمایت۔ مگر حکومتی نظام انہیں نظرانداز کر کے ان کے زخموں پر نمک چھڑکتا ہے۔وہی نظام جو انصاف کا دعویٰ کرتا ہے، ان کے پیٹ کی بھوک اور ان کی ضرورتِ زندگی کو “ڈیٹا میں نہ ہونے” کی سزا دیتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی تمام فلاحی اسکیموں میں معذور افراد کو انفرادی بنیاد پر شامل کیا جائے، چاہے وہ کسی خاندان کے ساتھ رہتے ہوں یا اکیلے۔ان کے لیے شناختی کارڈ نمبر کی بنیاد پر علیحدہ اندراج ہو، تاکہ کوئی بھی معذور بھائی یا بہن کسی اسکیم سے محروم نہ رہے۔یہ انصاف کا نہیں بلکہ انسانیت کا تقاضا ہے۔
مسئلہ نمبر 14
معذور افراد کے لیے مؤثر شکایات کمیشن کا قیام
یہ مسئلہ نہایت اہم ہے کہ پنجاب میں ایسا کوئی مضبوط اور مؤثر نظام موجود نہیں جو معذور افراد کے مسائل، شکایات اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو سن سکے اور ان کا عملی حل نکال سکے۔ موجودہ شکایات کے نظام میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ درخواست جمع تو ہو جاتی ہے، مگر اگلے ہی دن اس کا اسٹیٹس بدل کر “حل شدہ” لکھ دیا جاتا ہے، حالانکہ شکایت کنندہ سے کوئی رابطہ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اصل مسئلہ حل ہوتا ہے۔ یہ رویہ معذور افراد کے اعتماد اور وقار کو مجروح کرتا ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب حکومت فوری طور پر ایک بااختیار ’’معذور افراد شکایات کمیشن‘‘ قائم کرے جو نہ صرف صوبائی سطح پر کام کرے بلکہ وفاق سے متعلق وہ تمام مسائل بھی دیکھے جو معذور افراد کے حقوق، سہولیات، یا سرکاری پالیسیوں سے جڑے ہوں۔
یہ کمیشن درج ذیل اصولوں پر قائم کیا جائے:
یہ ادارہ صرف پنجاب حکومت کے تحت ہو مگر اس کے دائرہ کار میں وہ تمام وفاقی یا بین الصوبائی مسائل بھی آئیں جو معذور افراد سے متعلق ہوں۔
کمیشن میں خود معذور افراد کو نمائندگی دی جائے تاکہ وہ اپنے تجربے اور حقیقی حالات کی روشنی میں فیصلے کر سکیں۔
کوئی بھی معذور فرد اپنی شکایت بلا معاوضہ، بلا فیس اور بلا سفارش درج کروا سکے۔
جب تک شکایت کا مکمل حل نہ ہو جائے، اس کا اسٹیٹس “حل شدہ” قرار نہ دیا جائے۔
اگر کسی سرکاری یا نجی ادارے میں معذور افراد کے ساتھ امتیاز برتا جائے یا قانونی حق سے محروم کیا جائے تو کمیشن فوری کارروائی کرے اور ذمہ دار افراد کے خلاف سخت سفارشات پیش کرے۔
کمیشن کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ تمام سرکاری محکموں، سکیموں، اور پالیسیوں کی نگرانی کرے تاکہ معذور افراد کے حقوق کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ کمیشن صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ امید کا دروازہ ہوگا۔ یہ معذور افراد کو وہ پلیٹ فارم دے گا جہاں ان کی بات سنی جائے گی، ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیا جائے گا، اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں گے
وقت آ گیا ہے کہ پنجاب حکومت ایک ایسا ادارہ قائم کرے جو محض کاغذوں میں نہیں بلکہ حقیقت میں معذور افراد کے ساتھ کھڑا ہو۔
مسئلہ نمبر 15
معذور افراد کے لیے خصوصی عدالتی نظام اور ویڈیو لنک کے ذریعے مقدمات،
معذور افراد انصاف تک رسائی میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ جسمانی، بصری، سماعتی اور ذہنی کمزوریوں کی وجہ سے وہ عدالت میں پہنچنے، وکیل رکھنے یا مقدمات کی پیروی کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کے حقوق پامال ہو جاتے ہیں، زمینوں اور جائیدادوں کے تنازعات طویل عرصے تک حل نہیں ہوتے، اور وہ انصاف کے حصول کے لیے برسوں انتظار کرتے ہیں۔
لہٰذا یہ ضروری ہے کہ پنجاب حکومت معذور افراد کے لیے خصوصی عدالتی نظام قائم کرے، جو درج ذیل اصولوں پر مبنی ہو:
معذور افراد کو تمام عدالتی مقدمات میں بلا معاوضہ وکیل فراہم کیا جائے۔
مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر سنا جائے تاکہ برسوں کا انتظار ختم ہو۔
ہر ضلع میں کم از کم ایک جج مقرر ہو جو معذور افراد کے مقدمات، زمینوں کے جھگڑوں، جائیداد کے تنازعات اور سرکاری حق تلفی کے معاملات کو خصوصی طور پر سنے اور فیصلہ کرے۔
عدالتوں میں معذور افراد کے لیے رسائی آسان بنائی جائے، بشمول ریمپ، علیحدہ نشستیں اور سماعتی معذور افراد کے لیے ترجمان۔
خواتین معذور افراد کے مقدمات کو ترجیح دی جائے، کیونکہ وہ دوہری مشکلات اور زیادتیوں کا شکار ہوتی ہیں۔
شکایات کا نظام مضبوط بنایا جائے تاکہ کوئی درخواست اس وقت تک خارج نہ ہو جب تک مکمل حل نہ ہو جائے۔
خاص طور پر وہ معذور افراد جو جسمانی طور پر چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہیں، انہیں ہر عدالت کی تاریخ پر حاضری کے لیے مجبور نہ کیا جائے، بلکہ ویڈیو لنک کا مستقل نظام قائم کیا جائے تاکہ وہ گھر بیٹھے مقدمات میں شامل ہو سکیں اور عدالتی کارروائی میں حصہ لے سکیں۔
یہ نظام نہ صرف معذور افراد کو انصاف تک حقیقی رسائی دے گا بلکہ عدالتوں کے نظام کو زیادہ انسانی، مؤثر اور شفاف بنائے گا۔ اس سے معذور افراد کو جسمانی اذیت اور اضافی خرچ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، اور وہ باعزت انداز میں اپنے حقوق کے لیے عدالتی کارروائی کر سکیں گے۔
مسئلہ نمبر 16
معذور افراد کے لیے وراثت اور جائیداد میں انصاف
معذور افراد، خاص طور پر خواتین، اکثر اپنے والدین یا خاندان کی جائیداد میں اپنا جائز حصہ حاصل نہیں کر پاتے۔ وہ نان سرف یا قانونی ناانصافی کا شکار ہو جاتے ہیں، اور ان کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں۔ نتیجتاً یہ معذور بھائی یا بہنیں مالی طور پر کمزور رہ جاتے ہیں اور ان کا معاشرتی وقار بھی متاثر ہوتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ایسا مستقل اور مؤثر نظام قائم کرے جس کے تحت:
۱۔ معذور افراد کو ان کی جائیداد یا وراثت میں مکمل اور فوری حق دیا جائے، تاکہ مقدمات عدالت جانے سے پہلے ہی حل ہو جائیں۔
۲۔ وراثت کی منتقلی کے دوران کوئی فیس یا ٹیکس نہ لگے تاکہ معذور افراد کو اضافی مالی دباؤ نہ ہو۔
۳۔ خواتین معذور افراد کو بھی جائیداد میں ان کا قانونی حصہ ملے اور انہیں کسی طرح کی ناانصافی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
۴۔ یہ نظام شفاف اور قابلِ رسائی ہو تاکہ معذور افراد خود یا نمائندے کے ذریعے آسانی سے اپنا حق حاصل کر سکیں۔
یہ قدم معذور افراد کے لیے انصاف کی بنیاد فراہم کرے گا، ان کے حقوق کی حفاظت کرے گا اور معاشرتی برابری کو فروغ دے گا۔
مسئلہ نمبر 17
معذور افراد کے لیے مفت اور آسان ٹرانسپورٹ
معذور افراد کے لیے نقل و حرکت ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جسمانی معذوری یا صحت کی کمزوری کی وجہ سے وہ اکثر عام بس، ٹرین یا رکشہ استعمال نہیں کر پاتے۔ اگر استعمال بھی کریں تو کرایہ انہیں برداشت سے باہر ہوتا ہے، اور اسپتال، دفاتر، رجسٹریشن مراکز یا تعلیمی اداروں تک پہنچنا ان کے لیے مشقت اور اضافی خرچ کا باعث بنتا ہے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ:
معذور افراد کو تمام سرکاری اور نجی ٹرانسپورٹ میں مفت یا سبسڈی شدہ سفر کی سہولت فراہم کی جائے۔

اسپتال، رجسٹریشن مراکز، تعلیمی ادارے اور دیگر ضروری مقامات تک ان کے لیے مستقل اور محفوظ آمد و رفت کا نظام بنایا جائے۔
وہ افراد جو چل پھر نہیں سکتے، ان کے لیے گھر سے پک اینڈ ڈراپ سروس جیسی سہولت دستیاب ہو تاکہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق باعزت انداز میں نقل و حرکت کر سکیں۔
یہ سہولت معذور افراد کے لیے زندگی کی سب سے بڑی آسانی ہوگی اور انہیں روزمرہ کے کاموں میں باعزت خود مختاری فراہم کرے گی۔
مسئلہ نمبر 18
معذور افراد کے کاموں میں مکمل مفت سہولت اور پرائیویٹ کمیشن پر پابندی
معذور افراد کو بیت المال سمیت تمام سرکاری اداروں میں اپنے کام مکمل کرنے کے لیے اکثر مشکلات کا سامنا ہے۔ رجسٹریشن، سرٹیفکیٹ، پرنٹنگ، فوٹو کاپی اور دیگر ضروری کارروائیاں اکثر پرائیویٹ دکانوں یا دلالوں کے ذریعے کرائی جاتی ہیں، جس سے نہ صرف معذور افراد پر غیر ضروری خرچ بڑھتا ہے بلکہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ:
۱۔ معذور افراد کے تمام کام، بشمول رجسٹریشن، فوٹو کاپی، پرنٹنگ یا دیگر سرکاری کارروائیاں بالکل مفت اور بلا معاوضہ کی جائیں۔
۲۔ مقامی سرکاری ملازمین کو پابند بنایا جائے کہ وہ تمام کام خود مکمل کریں اور کسی پرائیویٹ فرد یا دکان کو کام نہ کرنے دیں۔
۳۔ پنجاب بھر میں معذور افراد کے کاموں کو پرائیویٹ دلالوں یا دکانوں کے ذریعے کرنے پر قانونی پابندی لگائی جائے، جیسے کہ دفعہ ۱۴۴ کی طرح سخت اقدامات۔
۴۔ جو سرکاری ملازمین جان بوجھ کر معذور افراد کے کام پرائیویٹ اداروں کے ذریعے کروائیں، ان کے خلاف سخت کارروائی اور سزا یقینی بنائی جائے۔
یہ قدم معذور افراد کے حقوق کے تحفظ، ان کی مالی خودمختاری اور سرکاری عملے کی شفافیت کے لیے ضروری ہے، تاکہ کوئی بھی شخص ان کے جائز کاموں سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور ہر سہولت بلا معاوضہ اور باعزت انداز میں فراہم کی جائے۔
مسئلہ نمبر 19
معذور افراد کے حقوق کی تعلیم میں شمولیت اور معاشرتی شعور
معذور افراد اکثر معاشرتی سطح پر نفرت، نظراندازی اور احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی معذوری کی وجہ سے کمتر یا کمزور سمجھا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی معاشرے کے برابر شہری ہیں اور ان کے حقوق واضح اور معتبر ہیں۔
اس مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ حکومت تعلیمی نصاب میں معذور افراد کے حقوق شامل کرے۔ خصوصاً:
اسکولوں اور کالجوں میں معاشرتی علوم اور اسلامیات کی کتابوں میں ایک مخصوص باب معذور افراد کے حقوق کے لیے مختص کیا جائے۔
۲۔ اس باب میں واضح کیا جائے کہ معذور افراد کو معاشرتی سطح پر احترام، برابری اور مواقع فراہم کرنا سب کا اخلاقی اور قانونی حق ہے۔
نصاب کے ذریعے معاشرے میں شعور بیدار کیا جائے تاکہ لوگ معذور بھائی بہنوں کے ساتھ نفرت یا امتیاز کے بجائے ہمدردی، تعاون اور احترام کا رویہ اپنائیں۔
سلامی تعلیمات اور انسانی حقوق کے اصولوں کے ذریعے یہ پیغام دیا جائے کہ معذور افراد بھی معاشرتی اور اقتصادی زندگی کا اہم حصہ ہیں اور ان کے حقوق کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے۔
یہ اقدام نہ صرف معذور افراد کے اعتماد اور وقار کو بڑھائے گا بلکہ معاشرتی رویے میں بھی مثبت تبدیلی لائے گا اور ایک منصفانہ، ہمدرد اور شامل معاشرہ تشکیل دینے میں مدد کرے گا
مسئلہ نمبر 20
معاون آلات کے حصول اور رجسٹریشن کا پُچیدہ نظام
معذور افراد کو معاون آلات (جیسے سفید چھڑی، وہیل چیئر، یا دیگر سہولیات) حاصل کرنے کے لیے جس پیچیدہ نظام سے گزرنا پڑتا ہے وہ ان کے لیے اذیت بن چکا ہے۔ سب سے بڑی مشکل آن لائن رجسٹریشن کی شرط ہے، جس میں ای میل ایڈریس اور پاس ورڈ لازمی مانگا جاتا ہے۔ اکثر معذور افراد کے پاس ٹچ موبائل فون یا ای میل بنانے کی سہولت ہی نہیں ہوتی۔
اگر وہ بیت المال یا کسی دفتر کا رُخ کریں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ پہلے ڈاکٹر سے میڈیکل رپورٹ بنواؤ، پھر اس رپورٹ کو لے کر کسی پرائیویٹ دکان پر رجسٹریشن کرواؤ، جہاں فیس لی جاتی ہے۔ اس کے بعد دوبارہ کال کر کے انہیں میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونے کے لیے بلایا جاتا ہے۔ یوں ایک سفید چھڑی یا وہیل چیئر کے حصول کے لیے بھی تین تین چکر لگانا پڑتے ہیں۔
یہ صورتحال اُن بھائیوں کے لیے بہت اذیت ناک ہے جو خود چلنے پھرنے کے قابل نہیں، یا مالی طور پر کمزور ہیں۔
ایسے افراد کے لیے ٹرانسپورٹ کا خرچ ہی اُن کی سکت سے باہر ہوتا ہے۔
اس لیے حکومت کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ:

  1. سفید چھڑی کے لیے میڈیکل رجسٹریشن کی شرط ختم کی جائے، اور صرف معذوری سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر ہی سفید چھڑی دی جائے۔
  2. وہیل چیئر یا دیگر آلات کی رجسٹریشن کے دوران معذور فرد کو ایک ہی بار ہسپتال بلایا جائے اور تمام مراحل اسی دن مکمل کیے جائیں۔
  3. جن معذور افراد کے لیے سفر ممکن نہیں، اُن کے لیے گھر بیٹھے تصدیق اور سامان کی فراہمی کا نظام بنایا جائے۔

مسلہ نمبر21
وہیل چیئر اور چھڑی پہ پینک بٹن نصب کیا جائے معذور افراد کے تحفظ کے تحت تاکہ معذور بندے کو کسی بھی قسم کی شکایت ہو تو وہ وہیں پینک بٹن کے ذریعے شکایت درج کروا سکتا ہے ۔بار بار کے چکر، خرچے، اور بے جا تقاضے نہ صرف ان کے لیے تکلیف دہ ہیں بلکہ یہ حکومتی سہولتوں کے اصل مقصد کو بھی ناکام بنا دیتے ہیں۔
امید واثق ہے کہ درج بالا تحریر مقدس ایوان میں بیٹھے ہمارے معززنمائندگان کو ضرور اس معاملے پہ لب کشائ کرنے پہ آمادہ کرے گی ان شاءاللہ ۔

کرومہربانی تم اہل زمیں پر،
خدامہرباں ہو گا عرش بریں پر۔

تحریر ۔
ایس طاہرہ جمیل ۔
03435980250