معجزات رسول ﷺ بوقت ولادت (۱)

تاریخِ سئیر کے اوراق جب اس لمحہ ءمسعود کے ذکر پر آتے ہیں تو قلم کی سیاہی خوشبو بن جاتی ہے، الفاظ نُور میں نہا جاتے ہیں اور دل کی زبان عقیدت و محبت کے نغموں میں ڈھل جاتی ہے۔ کُتُبِ سِیَر و احادیث اس پر شاہد ہیں کہ جس شب نبیِ رحمت ﷺ کی ولادتِ باسعادت ہوئی، مکّہ کی فضائیںخوشبوؤںسے معمور ہوگئیں اور کائناتِ ہست و بود سجدہ ءشکر میں ڈھل گئی۔


محبوبِ آخرالزماں ﷺ کی تشریف آوری دراصل باطل کی شکست اور رحمتِ الٰہی کے ظہور کا اعلان تھی۔ یہ وہ ساعتِ سعید تھی ،جس کا انتظار ازل سے کائنات کے ذرّے ذرّے کو تھا۔ یہ وہ مبارک لمحہ ءمسعود تھا جس کی بشارتیں صحائفِ آسمانی میں صدیوں سے گونجتی چلی آ رہی تھیں اور جس کے تذکروں نے عشّاقِ حق کے قلوب کو ہمیشہ سے معطّر کررکھا تھا۔ زمین نے اُس گھڑی اپنے دامن کو خوشبوؤں سے بھر دیا، آسمان نے اپنی وسعتوں کو انوار و تجلّیات سے روشن کر لیا اور فلک کے نقیبوں نے نغمہ ءمسرّت چھیڑتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ رحمتِ مجسّم، منبعِ انوار، بشیر و نذیر ﷺ تشریف لا رہے ہیں جن کی ضیاءبار کرنوں سے جہانِ انسانی اپنی گم شدہ منزلِ ہدایت پا لے گا۔اسی ساعت میں عجائب و معجزات کی بارش ہوئی، فلک اور زمین خوشی سے جھوم اٹھے اور قدرتِ کاملہ نے اپنے محبوب کے وجودِ مسعود کے ساتھ اپنے وعدوں کو روشن نشانیوں کے ذریعے پورا کر دکھایا۔


یہ وہ ساعتِ سعید تھی جس کی حرمت میں وقت بھی ٹھہر گیا، فضاؤں نے ادب کی چادر اوڑھ لی اور کائنات نے سکون و سرور کا جام نوش کیا۔ ملائکہ کی صفیں تعظیم و خشوع سے جھک گئیں۔ عالمِ امکان میں ایک بے مثال چراغ فروزاں ہوا اور محبوبِ کبریا ﷺ کے نورِ ولادت کے ساتھ ہی تقدیرِ کائنات کا ورق پلٹ گیا۔باطل کی جڑیں ہل گئیں، ظلم و جبر کے ایوان زمین بوس ہوگئے، آتشکدے جو صدیوں سے دہک رہے تھے، بجھ گئے اور دلوں کے بُت خاشع و خاضع ہو کر ٹوٹنے لگے۔


نبیِ کریم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر جو مشہور و معتبر معجزات اور غیبی مظاہر رونما ہوئے، ذیل میں اُن کی فہرست پیش کی جا رہی ہے۔ ان واقعات کا ذکر معتبر کتبِ سیرت، روایاتِ حدیث، اور تواریخِ اسلام میں وضاحت اور اہتمام کے ساتھ منقول ہے۔ یہ مظاہرِ نور دراصل اس ابدی حقیقت کے روشن دلائل ہیں کہ رسولِ رحمت ﷺ کی آمد محض ایک ولادت نہیں تھی، بلکہ عہدِ ظلمت میں نورِ ہدایت کے ظہور اور باطل کے زوال و حق کے غلبے کا ربّانی اعلان تھی ۔ ایک ایسا اعلان جس نے تاریخِ انسانیت کا رخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

سیدہ آمنہ کا مشاہدہءانوارِ رسالت ﷺ
تقدیس و انوار کی اس شبِ سعید میں، جب ربِّ کائنات نے اپنے محبوبِ برگزیدہ، حضرت محمد مصطفی ٰ ﷺ کے نور سے زمین و آسمان کو منوّر فرمانا چاہا ، سیدہ آمنہ اپنی خلوتِ سکینہ میں ایسی سرشاری و طما نیت سے معمور تھیں جو عام انسانی احساسات سے ماورا تھی۔ نہ کوئی اضطراب، نہ کسی درد کی شدت؛ بلکہ ایک نرم و لطیف راحت تھی جو ان کے وجود کو گھیرے ہوئے تھی روایات میں آتا ہے کہ جب رسولِ رحمت ﷺ کی ذاتِ بابرکات نے اس دنیا کو اپنی جلوہ سامانیوں سے منوّر فرمایا، تو فرشتوں کےقافلے زمین پر اتر آئے۔ ایک جماعت بیتُ اللہ کے طواف میں مشغول ہوئی، دوسری نے سیدہ آمنہ کے گرد حصارِ رحمت قائم کیا اور تیسری آسمانوں کی وسعتوں میں نغماتِ مسرّت و تسبیح بلند کرنے لگی۔ عالمِ بالا اور ارض و سما کی فضاوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ فرشتے ایک دوسرے کو اس عظیم بشارت پر مبارکباد دینے لگے کہ رحمتِ دو جہاں ﷺ تشریف لا چکے ہیں۔


شام و بصریٰ کے محلات روشن ہو گئے
حضرت سیدہ آمنہ روایت فرماتی ہیں کہ جب رسولِ اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت ہوئی تو اُن کی آنکھوں کے سامنے ایسے مناظر جلوہ گر ہوئے جن کی تاب و تمازت نے روح و دل کو وجد میں ڈال دیا۔ ایک نورانی تجلّی نے ان کے حجرے کو اس قدر منوّر کر دیا ، گویا آفتابِ ازل طلوع ہو گیا ہو۔ یہ نور صرف نگاہوں کو خیرہ کرنے والا نہیں تھا، بلکہ دل کی گہرائیوں میں اُتر کر روح کو طہارت، سرور اور اطمینان سے معمور کر رہا تھا۔ جب آپ ﷺ پیدا ہوئے تو ایک نور آپ کے ساتھ ظاہر ہوا جس کی تجلّی سے شام اور بُصرٰی کے محلات روشن ہو گئے۔ سیدہ آمنہ بیان فرماتی ہیں: ”میں نے جب اپنے لختِ جگر کو جنم دیا تو میرے گھر میں ایک ایسا نور پھیلا کہ شام کے محلات مجھے دکھائی دینے لگے۔“
(دلائلُ النبوّة للبیہقی، ج ۱، ص ۱۱۱)


ولادتِ مصطفی ٰ ﷺ : مظہرِ پاکیزگی و تقدیس
جب محبوبِ خُدا ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ کی ولادت دیگر انسانوں کی مانند نہ تھی ، بلکہ ہر پہلو سے ربِّ کائنات نے اسے اعجاز و انفراد کا پیکر بنا دیا۔ محدّثین و م¶رّخین بالاتفاق لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کی ولادت پاکیزگی اور طہارت کا ایک غیر معمولی مظہر تھی۔ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس ہر طرح کی آلائشوں سے منزّہ تھی؛ نہ آپ پر وہ طبعی اثرات ظاہر ہوئے جو عام بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور نہ کسی قسم کی نجاست یا کثافت کا شائبہ ہوا۔ گویا خالقِ کائنات نے آپ کی طیب و طہارت ذاتِ بابرکات کو ازل ہی سے دنیا پر نمایاں کر دیا تاکہ اہلِ زمین پر آشکار ہو جائے کہ یہ ولادت دراصل تقدیسِ وجودِ مصطفی ﷺ اور نزاہتِ فطرتِ محمدی ﷺ کا ربّانی اعلان ہے۔


نبیِ آخرالزماں ﷺ مختون پیدا ہوئے
نبیِ اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے حوالے سے اہلِ سیرت و محدثین نے متعدد خصوصیات ذکر کی ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ مختون (ختنہ شدہ) اور ناف بریدہ (کٹے ناف کے ساتھ) پیدا ہوئے۔ان کے مطابق یہ ایک ایسی علامت تھی جو آپ ﷺ کے کامل الطہارت اور فطرتِ سلیمہ ہونے کی نشاندہی کرتی تھی۔ آپ ﷺ کی یہ ولادتِ غیرِ معمولی دراصل اس بات کا اعلان تھی کہ خالقِ کائنات نے اپنے محبوب کو ہر نوعِ بشری اثر اور جسمانی آلائش سے منزّہ و پاکیزہ پیدا فرمایا، تاکہ آغاز ہی سے طہارت و تقدیس کا یہ نورِ محمدی ﷺ تمام عالم پر منکشف ہو جائے۔ دوسری جانب بعض اہلِ تحقیق، مثلاً حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ (فتح الباری) اور امام نوویؒ نے (شرح صحیح مسلم) میں فرمایا ہے کہ اگرچہ یہ روایت مشہور اور مستفیض ہے، تاہم اس کی اسناد میں اختلاف پایا جاتا ہے لہٰذا یقینی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ ختنہ پیدائش کے وقت ہی فطری طور پر موجود تھا یا بعد از ولادت، عقیقہ کے موقع پر انجام دیا گیا۔اس کے باوجود تمام علما اس بات پر متفق ہیں کہ خواہ یہ کیفیت پیدائشی معجزہ ہو یا بعد از ولادت کا عمل، دونوں صورتوں میں یہ امر قطعی ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس ہر قسم کے نقص، عیب اور غیر طہارت سے منزّہ و مقدس پیدا ہوئی اور آپ ﷺ کی ولادتِ مبارکہ فطرتِ کاملہ، طہارتِ مطلقہ اور کمالِ انسانی کے اعلیٰ ترین مظاہر میں سے ایک تھی۔ )جاری ہے)