معاشی ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت

پاکستان معاشی لحاظ سے دن بدن کمزور ہو رہا ہے۔ اگرچہ کئی بار ہم نے خوشخبریاں سنیں کہ اگلے تین ماہ میں یا چھ ماہ میں یا اگلے سال پاکستان کی معیشت میں بہتری آ جائے گی لیکن وہ اگلا عرصہ کبھی آیا ہی نہیں۔ جب بھی ایک ڈیڈلائن مکمل ہوتی ہے تو ساتھ ہی معاشی بہتری کے لیے دوسری تاریخ دے دی جاتی ہے یوں سال ہا سال گزر گئے مگر معیشت میں بہتری نہیں آئی۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن بدقسمتی سے ان وسائل سے ہم صحیح معنوں میں فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ مسائل کو چھوڑ کر ان باتوں کی طرف توجہ دی ہے جو مسائل تھے ہی نہیں جیسے موجودہ دور میں حکومت اصل مسائل کی طرف توجہ دینے کی بجائے، یا تو اپوزیشن کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہے اور وزراء اپنی تمام تر توانائیاں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی واپسی پر صرف کر رہے ہیں یا روزانہ نت نئے پروگرام لانچ کر کے عوام کو خوش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کبھی حکومت لنگر خانے کھولتی ہے تو کبھی پناہ گاہیں قائم کرتی ہے۔ کبھی احساس کے نام پر راشن پروگرام متعارف کراتی ہے تو کبھی صحت کارڈز کا اجراء کیا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے یہ سب کچھ عوام کے لیے فائدہ مند ہے لیکن نہایت قلیل مدت کے لیے، ان میں سے بھی اکثر پروگراموں سے تمام شہری مستفید نہیں ہو سکتے، پھر یہ پروگرام ملکی معیشت کے لیے بھی سود مند نہیں ہیں، بلکہ ملکی خزانے پر مزید بوجھ کا باعث ہیں۔حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جو ملکی معیشت کے لیے سود مند ثابت ہوں۔ کیونکہ معیشت اس وقت دنیا میں سب سے بڑا ہتھیار ہے جس ملک کی معیشت مستحکم ہو اسے کسی اسلحہ کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ فقط معاشی طاقت سے ہی دیگر ممالک کو پچھاڑ سکتا ہے، اس حوالے سے چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے معیشت کو اتنا مستحکم کر دیا کہ دنیا کی سپر طاقت اور اسلحہ کی دوڑ میں سب سے آگے رہنے والا ملک امریکہ بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین اپنی معیشت کو مزید مضبوط بنانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے اور ہمسایہ ممالک میں سرمایہ کاری اور روڈ بنا کر اپنی مصنوعات کو پوری دنیا میں باآسانی پھیلا رہا ہے۔ معیشت کی مظبوطی کے لیے ضروری ہے کہ ہم کچھ ٹھوس اقدامات کریں۔ آج دنیا میں سیاحت ایک بہت بڑا ذریعہ آمدن سمجھا جاتاہے بلکہ کئی ممالک تو اسی پر چل رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں کون سا ایسا شہر ہے جہاں سیاحتی مقام نہ ہوں۔ پاکستان توسیاحتی مقامات سے بھرا ہوا ہے، اگر اس شعبے پر ہی پوری توجہ مرکوز کر لی جائے تو ہماری آمدن میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ چھوٹے بڑے تاریخی مقامات کی تزین و آرائش کر کے انہیں قابل توجہ بنایا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر دور دراز علاقوں میں جو چھوٹے چھوٹے قلعے وغیرہ ہیں ان کی مرمت کر کے ان کے ساتھ ارد گرد کے کچھ خالی رقبے پر پارک بنا دیے جائیں۔ پھر ان کی تشہیر کی جائے تو یہ بھی اچھے خاصے سیاحتی مقامات بن سکتے ہیں۔ پھر بڑے اور مشہور تاریخی مقامات کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ اسی طرح پاکستان میں جو قدرتی مناظر اور مشہور پہاڑی سیاحتی مقام ہیں ان تک سیاحوں کی رسائی کو آسان بنا کر بھی ہم اس شعبے کو بہت ترقی دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم ملک کے اندر صنعتیں قائم کریں اور اپنے ملک میں خام مال کے ذخائر تلاش کر کے مصنوعات تیار کریں اور انہیں اپنے ملک میں بھی استعمال کریں اور بیرون ممالک کو بھی فروخت کریں۔ ہمارے پاس جتنی زیادہ صنعتیں ہوں گیں ہماری معیشت اتنی ہی مضبوط ہوتی چلی جائے گی، زیادہ سے زیادہ کارخانے اور فیکٹریاں لگانے سے ہماری درآمدات میں کمی واقع ہو گی اور برآمدات میں اضافہ ہو گا اور یہ معیشت کی مٖضبوطی کی پہلی علامت ہے۔ اگر ہم خود صنعتیں قائم
نہیں کر سکتے تو کم از کم بیرون ممالک سے صنعتکاروں کو ہی اپنی طرف متوجہ کریں اور انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیں، بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ پاکستان کے ہر شہر میں ایک انڈسٹریل زون قائم کرے اور شہری آبادی سے ذرا ہٹ کر ایک قطعہ اراضی صنعتوں کے لیے مختص کرے جہاں بیرونی سرمایہ کاروں کو مفت یا چند سالوں کے لیے لیز پر زمین دی جائے جس کا کرایہ نہایت کم ہو۔ ہمارے پاس ہر شہر میں بڑے پیمانے پر غیر آباد زمینیں موجود ہیں اس لیے ہمیں زمین کی فراہمی میں کوئی دقت نہیں ہو گی۔ لہٰذا ہر چھوٹے بڑے شہر میں انڈسٹریل زون قائم کر دیے جائیں، ان انڈسٹریل زونز میں ٹیکسوں کی خصوصی رعایت رکھی جائے۔ اس کے بعد ان زونز میں بجلی اور گیس کی بلا تعطل اور وافر مقدارمیں فراہمی کو یقینی بنائیں تاکہ صنعتوں کا کام ہر وقت جاری و ساری رہے اور ان انڈسٹریل زونز کی سیکیورٹی یقینی بنائیں تاکہ بیرونی سرمایہ کار بلاخوف و خطر اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ اگر ہم یہ اقدامات کر لیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ بیرونی سرمایہ کار ہمارے ملک میں سرمایہ کاری نہ کریں ہمیں صنعتیں قائم کرنے کے لیے سرمایہ لگانے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی ہم فقط انڈسٹریل زونز کا انتظام کریں کیونکہ ہمارے پاس ہنر مند اور پڑھے لکھے افراد بہت زیادہ ہیں اور بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے بہت کشش رکھتے ہیں لہٰذا ہمارے وطن کی یہ خوبی بھی بیرونی سرمایہ کاروں کی رغبت کا سبب بن سکتی ہے۔یہ چند ایک اقدامات ہیں جن پر اگر توجہ دی جائے تو ہم معاشی طور پر خود کفیل ہو جائیں گے اور اس پر زیادہ محنت اور دولت بھی خرچ نہیں ہوگی، اسی طرح طویل عرصہ تک ہمیں انتظار بھی نہیں کرنا پڑے گا بلکہ جلد ہی پاکستان معاشی طور پر ترقی کی راہ پر چل پڑے گا اور پھر ہمیں کسی آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف وغیرہ کی تابعداری نہیں کرنی پڑے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں