معاشی بدحالی

پی ڈی ایم حکومت کے قیام اور شہباز شریف کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالے ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر عوام کی زندگی میں بد حالی ختم یا کم ہونے کے بجائے متواتر بڑھ رہی ہے موجودہ حکومت کے پہلے سال میں مہنگائی کے طوفان نے عوام کی کمر توڑدی ہے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے کام سے مشہور ہونے والے شہباز شریف عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوتے نظر آتے ہیں گذشتہ ساڑھے چار سال میں آٹے کی قیمت چار گنابڑھ چکی ملک میں مجموعی قیمتوں میں اضافے کی شرح 35.5فی صد،دیہی علاقوں میں غذائی اجناس کی مہنگائی پچاس فی صد اور شہر وں میں بیس فی صد ہو گئی ہے اور ملک میں مہنگائی کا طوفان فوری طور پر تھمنے والا نہیں ہے نہایت ہی افسوس کی بات یہ ہے کہ اس عرصہ کے دوران سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں اور پنشن میں ایک پیسے کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے سرکاری ملازمین اور میشنرز سخت مایوسی کا شکار دکھائی دے رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ مہنگائی میں اضافے کے تناسب سے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ کیا جائے عالمی مالیاتی فنڈکی شرائط کو پورا کرنے کے لئے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں ان میں بجلی کی قیمت میں فی یونٹ اضافہ پیٹرول اور گیس کی قیمت بڑھانے کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بنک کی جانب سے بنیادی شرح سود میں اضافے کے رجحان اور روپے کی قدر میں کمی کی وجوہات شامل ہیں مسلم لیگ ن کی حکومت جب 2018میں ختم ہوئی تھی تو روپے کی قدر125روپے کے قریب تر پہنچ گئی تھی عمران خان کے ساڑھے تین سال کے دور میں روپے کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے چار اپریل 2023کو ڈالر 288روپے پچاس پیسے ہوگیا جبکہ اوپن مارکیٹ میں 291روپے کی سطح پر پہنچ گیا ہے عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد ڈالر 105روپے پچاس پیسے مہنگا ہوچکا ہے یہی وہ بنیادی چیزہے جس نے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کیا ہوا ہے پاکستان میں معاشی سرگرمی کے لئے ایندھن درآمد کیا جاتا ہے اور جب روپے کی قدر تیزی سے کم ہوتی ہے تو ہر چیز مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہے روپے کی قدر میں کمی کی بڑی وجہ زرمبادلہ ذخائرسولہ ارب بیالیس کروڑ ڈالر کی سطح پر تھے بیرونی آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا رہااور زرمبادلہ تیزی سے گرتے ہوئے فروری 2023میں آٹھ ارب تہتر کروڑ ڈالر رہ گئے تھے چین اور دوست ملکوں کی جانب سے ملنے والی مصاوفت کی وجہ سے زرمبادلہ ذخائر بڑھ کر دس ارب ڈالرہو گئے پاکستان کے قرض میں گذشتہ سات برسوں میں دگنا اضافہ ہوا جس میں 2014-15میں پینسٹھ ارب ڈالر سے2021-22میں ایک سو تیس ارب ڈالر تک اضافہ ہوا مالی سال کے ابتدائی چھ ماہ میں پاکستان کے دس ارب اکیس کروڑ ڈالر سے زائد مالیت کے قرضے واپس کئے ہیں ان واپس کردہ قرضوں میں آٹھ ارب ستائیس کروڑ ڈالر کا اصل زر جبکہ ایک ارب 94کروڑ ڈالر کا سود بھی شامل ہے 27مئی 2022کو پیٹرول کی قیمت149.86 روپے سے بڑھ کر 179.15روپے کر دی گئی اس کے بعد سے ایندھن کی قیمت اضافوں کے بعد 272روپے ہو گئی ہے توانائی کے دیگر ذرائع یعنی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ بجلی اور گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ ساڑے چار ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے گیس کے شعبے میں قیمتوں میں اضافے سے گردشی قرض میں اضافے کو صفر کر دیا گیا ہے حکومت نے جنوری 2023سے مقامی قدرتی گیس کی قیمت سولہ فی صد سے 112.32فی صد تک بڑھادی ہے گھریلو اور دیگر تمام گیس صارفین سے تین سو دس ارب روپے اضافی وصول کرنا مقصود ہے اسی طرح بجلی کے شعبے میں گردشی قرض کو کم کرنے کے لیے پہلے آئی ایم ایف نے بنیادی یونٹس کی قیمت بڑھائی اور جولائی 2022سے اکتوبر 2022کے درمیان بجلی کی فی یونٹ قیمت 7.91روپے بڑھا دی اس اضافے سے رہائشی صارفین کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت 24.28روپے سے بڑھ کر 32.73روپے ہو گئی اور اب بجلی کی فی یونٹ قیمت مزید بڑ ھا کر چالیس روپے کر دی گئی ہے معیشت میں مہنگائی بڑھ رہی ہو تو شرح سود بڑھا کر زر کی طلب کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس وجہ سے اسٹیٹ بنک نے بنیادی شرح سود میں تیزی سے اضافہ کیا ہے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے چار اپریل کو ہونے والے اجلاس میں بنیادی شرح سود ایک فی صد بڑھا کر اکیس فی صد کر دی گئی ہے جو کہ ملک کی بلند ترین شرح سود ہے تمام شرائط پر عمل کرنے کے باوجود آئی ایم ایف نے 1.2ارب ڈالر کا قرض منظور نہیں کیا ہے اس کی وجہ سے معیشت میں ڈالر کی قلت کا سامنا ہے اس قلت کو دور کرنے کے لیے حکومت متعدد اقدامات کئے ہیں اورپلانٹمشینری گاڑیوں کے سی کے ڈی کٹس اور متعدد درآمدات پر پابندی لگا رکھی ہے اس پابندی کی وجہ سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوا ہے ٹیکسٹائل آٹوموبائل،کیمیکلز،ادویات سازی لائٹ انجینئرنگ اور دیگر صنعتوں میں کام رک گیا ہے اور صحت کا شعبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ہے متعدد اہم آلات اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے صنعتوں کے پاس خام مال نہ ہونے کی وجہ سے متعدد صنعتوں میں کام بند ہو گیا ہے موبائل فون اسمبلی کی صنعت مکمل طور پر بند ہو گئی ہے اسی طرح ٹیکسٹائل کی صنعت بھی پچاس فی صد بندش کا عندیہ دے رہی ہے صنعتوں کی بندش سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی ہے اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ کی وجوہات میں ایک تو میکروآمامک انڈیکیٹرز کی گراوٹ اور ڈالر کی قلت ہے صورتحال یہ ہے کہ پاکستان بروقت آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں ناکام رہا ہے دوست ملک خصوصاًچین،پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے اور مختلف مدات میں قرضہ فراہم کر رہا ہے مگر معیشت کی بحالی کا کوئی جامع پلان نہ تو دوست ممالک فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور نہ ہی حکومت کوئی روڈ میپ دے پائی ہے ایک طرف مہنگائی ہے تو دوسری طرف سیلاب سے متاثرہ لاکھوں افراد تاحال کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہیں ان کی بحالی کا وعدہ بھی عالمی برادری پورا نہیں کر رہی ہے اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے بغیر زندہ رہنے کا ہنر سیکھنا ہو گا خدشہ یہی ہے کہ آنے والے لوگوں میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا اور صنعتوں کی بحالی بھی فوری طور پر ہوتی نظر نہیں آرہی ہے اس لیے پی ڈی ایم حکومت کا گزشتہ سال عوام کے لیے بہتر نہ تھا اور نہ ہی مستقبل قریب میں کوئی بہتری ہوتی نظر آرہی ہے پی ڈی ایم حکومت کے قیام اور شہبازشریف کووزیر اعظم بنے ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر عوام کی زندگی اور پاکستان کی معیشت میں بد حالی ختم ہونے یا کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں