معاشی استحکام کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت

کسی بھی ملک کی معیشت دنیا میں اس کی حیثیت کا تعین کرتی ہے۔ اگر ملک کی معیشت مضبوط ہے تو اسے دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس کی بات کو غور سے سنا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر اس ملک کے عہدیداران کسی دوسرے ملک کے دورے پر جائیں تو وہاں انہیں عزت و تکریم حاصل ہوتی ہے، ایئرپورٹ پر وہاں کے اعلیٰ عہدیداران و ہم منصبان استقبال کرتے ہیں، انہیں بھرپور وقت دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس معاشی لحاظ سے کمزور ملک کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہوتی، نہ انہیں کوئی عزت حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی بات پر کوئی کان دھرتاہے، یہ چیختے رہتے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہاں کے اعلیٰ عہدیداران حتیٰ کے صدر یا وزیراعظم بھی کسی دوسرے ملک کے دورے پر جائیں تو وہاں استقبال کے لیے زیادہ سے زیادہ وزیرخارجہ آجاتے ہیں اور کئی بار تو وزارت خارجہ کے سیکرٹری یا کسی افسر کو بھیج دیا جاتا ہے۔ پھر انہیں بھرپور وقت نہیں دیا جاتا بلکہ سرسری سی رسمی ملاقاتیں کر کے چلتا کر دیتے ہیں۔ یہ باتیں ان کی حیثیت کا تعین کرتی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور معاشی جنگ کا دور ہے اب اسلحہ کی دوڑ سے زیادہ معاشی میدان میں مقابلہ ہو رہا ہے،ہر ملک کی ترجیح معیشت ہے، تمام ترقی یافتہ ممالک معیشت میں خود کفیل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ چین کو دیگر ممالک پر فقط بہترین معیشت کی وجہ سے ہی برتری حاصل ہے، جس نے امریکہ جیسی طاقتوں کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔ جس ملک کی معیشت مضبوط ہے وہ ہر لحاظ سے مضبوط ہو جاتا ہے، اس لیے دنیا میں آج معاشی میدان میں سبقت لے جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ابتدا ہی سے معیشت کی بہتری کے لیے کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے۔ ہمارے حکمرانوں کو سیاسی جوڑ توڑ سے ہی فرصت نہیں ملتی تو وہ معیشت کے لیے کیا کریں گے۔ ملک میں ہمیشہ سیاستدان اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف رہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں کبھی کوئی وزیراعظم اپنے پانچ سال کا دورانیہ مکمل نہ کر سکا کیوں کہ ہر دور میں سیاستدانوں کی ترجیح حصول اقتدار رہی ہے۔ اب بھی یہی سلسلہ جوں کا توں جاری ہے بلکہ اب تو اس میں زیادہ شدت دیکھی جار ہی ہے۔ یہ ہمیشہ عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کی بجائے دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اگر کسی کو معیشت کا خیال آ بھی جائے تو دو میٹنگیں کر کے جوش ٹھنڈا کر لیتے ہیں، یا زیادہ سے زیادہ دو سڑکیں بنا کر، نوجوانوں کے لیے قرض سکیم کا اعلان کر کے فارغ ہو جاتے ہیں۔ جبکہ اصل کرنے کے کاموں سے یہ ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں۔ معاشی بہتری کے لیے ابتدائی طور پر اگردو کام کر لیے جائیں تو معیشت مضبوط ہو جائے گی۔
سب سے پہلا کام تو یہ کریں کہ ملک کے مختلف علاقوں بلکہ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اکنامک زونز قائم کریں۔ تمام شہروں کی شہری آبادی سے ذرا ہٹ کر ایک قطعہ اراضی فیکٹریوں اور کارخانوں کے لیے مختص کر دیں، اس میں چھوٹے شہروں کا خاص خیال رکھا جائے اس میں بھی بلوچستان اور سندھ کے دور دراز علاقوں کو ترجیح دی جائے تا کہ ان کی حالت کچھ بہتر ہو اور ان میں احساس محرومی ختم ہو جائے۔ اس کے بعد ملک میں کچھ مخصوص عرصہ کے لیے تمام غیر ضروری اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کر دی جائے اور پھر بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کو ملک میں وہ تمام ضروری و غیر ضروری اشیاء جو بیرون ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں ان کے کارخانے لگانے کی دعوت دی جائے۔ انہی
ٹیکس میں خاص طور پر رعایت دی جائے، ان کی سیکیورٹی کا خصوصی انتظام کیا جائے، اکنامک زونز کی بھی سیکیورٹی کا خاص خیال رکھا جائے، اسی طرح ان زونز میں بجلی اور گیس کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ان اقدامات کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری نہ کریں اور ملکی معیشت مضبوط نہ ہو۔ پھر ان سرمایہ کاروں سے کیے جانے والے معاہدے میں یہ شق بھی شامل کی جائے کہ فیکٹریوں میں ملازمین کی ایک بڑی تعداد جو ستر سے اسی فیصد بھی ہو سکتی ہے پاکستان ہی سے لی جائے گی جبکہ باقی بیس یا تیس فیصد بیرون ممالک سے لی جا سکتی ہے۔ اس طرح ملک میں بیروزگاری کا بھی بڑی حد تک خاتمہ ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ دوسرا اقدام سیاحت کے فروخ کے لیے کیا جائے۔ ہمارے ملک میں بہت زیادہ سیاحتی مقامات موجودہیں، اگر ہم چاہیں تو ملک کی معیشت کو بڑی حد تک سیاحت پر ہی چلا سکتے ہیں۔ ہمارے تقریباً تمام شہروں میں کوئی نہ کوئی سیاحتی مقام ضرور موجود ہے۔ کہیں قدرتی مقامات اور کہیں تاریخی مقامات اور عمارتیں ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں کوئی مقام ایسا ضرور ہے جو دیکھنے کے قابل ہے۔ ان تمام مقامات کو سیاحت کے قابل بنایا جائے۔ جو بڑی عمارتیں ہیں جیسے بڑے بڑے قلعے وغیرہ ان کی مرمت اور تزین و آرائش کی جائے، جو چھوٹی عمارتیں ہیں ان کی بھی مرمت کر کے ان کے ارد گرد پارک بنا دیے جائیں، اسی طرح پہاڑی مقامات پر سڑکیں اور پیدل چلنے کے لیے خوبصورت ٹریک بنائے جائیں۔ پھر تشہیر کر کے لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کیا جائے۔ ان اقدامات سے ملک میں سیاحت کو خوب فروغ ملے گا جس سے ملکی معیشت میں بہتری آئے گی اور ہم بھی دنیا میں ایک معزز قوم کے طور پر سر اٹھا کر جی سکیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں