معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری

ایک دن کے وقفے کے ساتھ دو ملک مرض وجود میں آئے ایک کو پاکستان کہا جاتا ہے اور دوسرے کو انڈیا بہارت یا ہندوستان کہا جاتا ہے پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو ریاست مدینہ کے بعد ایک نظریہ پر معرض وجود میں آیا اور وہ نظریہ تھا اسلام بعد ازاں ایک اور ریاست بھی نظریے کے نام پر معرض وجود میں آئی ہے جو مسلمانوں کو ناکوں چنے چبوا رہی ہے لیکن مسلمانوں میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اس کا مقابلہ کر سکیں اس نے سب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک مسلم ملک پر قبضہ کر لیا اور ارد گرد کے مسلم ممالک کے علاقوں پر بھی قابض ہے اور حال ہی میں اس نے مسلمانوں کے قبلہ اول کو اپنی حکومت کا دارالخلافہ بنانے کا اعلان کیا ہے جو سراسر عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے لیکن ستاون اسلامی ممالک میں اتنی جرات نہیں کہ اس کے اس اقدام کو روک سکیں اگر ایک دن کے وقفے کے ساتھ قائم ہونے والے ممالک کی بات کریں تو ہندوستان ایک ایسا جمہوری لحاظ سے مستحکم ملک ہے کہ وہاں سترہ بار قومی الیکشن کا انعقاد ہوا ہے اور وہاں پر تیرا وزرائے اعظم رہے ہیں ان کے پہلے وزیراعظم جواھر لال نہرو 1947 سے لے کر 1964 تک لگاتار ملک کے وزیر اعظم رہے اور ان کی پارٹی انڈین نیشنل کانگریس کی حکومت 1977 تا 1979کے دو سالہ وقفے کے ساتھ 1989 تک لگاتار حکمران رہی ان کی عوام اور حکمرانوں کا اپنے الیکشن کمیشن پر اتنا اعتماد اور بھروسہ ہے اور انہوں نے اس کو اتنا بااختیار اور اور خود مختار بنایا ہوا ہے کوئی نگران حکومت قائم نہیں کی جاتی بلکہ موجود حکومت ہی الیکشن کا انعقاد کرواتی ہے اور نتائج کے بعد حکومت منتخب پارٹی کے حوالے کر دی جاتی ہے اور کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوتا اور نہ کبھی دھاندلی کا شور مچایا جاتا ہے اسی سیاسی استحکام کی بنا پر دنیا کی انویسٹمنٹ بھارت منتقل ہو رہی ہے اور بھارت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ابھی اسکی رفتار تھوڑی کم ہے اس کی وجہ اس کی زیادہ ابادی ہے ان کی آبادی ہم سے چار گناہ زیادہ ہے اس کے باوجود وہ زراعت میں تقریباً خود کفیل ہے اگر بات کی جائے پاکستان کی تو اس کے معرض وجود میں آنے کے ایک سال اور چند ماہ کے بعد اس کے بانی اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور چار سال کے بعد اس کے بانیوں میں سے ایک فرد جو ملک کا وزیر اعظم تھا اس کو بھرے مجمع میں گولی سے قتل کر دیا جاتا ہے لیاقت علی خان کے بعد 1957 تک چھ وزیراعظم بدل دیے گئے ان میں سے ایک آئی آئی چندریگر صرف ساٹھ دن اس منصب پر براجمان رہے فیروز خان نون 295 دن حسین شہید سہروردی ایک سال اور اکتیس دن اور محمد علی ایک سال اور پینتیس دن اس منصب پر فائز رہے ان حالات کو دیکھتے ہوئے جواھر لعل نہرو نے کہا تھا میں نے اتنے پائجامہ نہیں بدلے جتنے پاکستان کے وزیر اعظم بدلے ہیں سب سے اہم بات یہ کہ1970 تک ملک میں عام انتخابات ہی سرے سے منعقد نہیں ہوئے جب منعقد ہونے تو ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے 1951میں پہلی مرتبہ مرحلہ وار الیکشن کا انعقاد ہوے لیکن وہ بھی متنازعہ ہی رہے دھاندلی کے الزامات لگائے جاتے رہے 1958 سے 1970 تک ملک میں سکندر مرزا ایوب خان اور یحییٰ خان کا مارشل لاء رھا 1965میں صدارتی ریفرینڈم منعقد ہوا اس ریفرنڈم میں ایوب خان کے مد مقابل مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح تھیں لیکن ان کو صرف ہرایا ہی نہیں گیا بلکہ ان کی زات پر وہ کیچڑ اچھالا گیا الامان الحفیظ اس غلاظت سے ہمارے ملک وقوم کا وقار کتنا گرا ہو گا کہ یہ وہ قوم ہے جو اپنے محسنوں کو گالیاں بکتی ہے پھر اسی طرح اٹھاسی سے 2000 تک دو دفعہ بے نظیر بھٹو اور دو دفعہ میاں محمد نواز شریف کی حکومتیں گرائی جا چکی تھیں 2000 کے بعد تک پارٹیوں نے تو اپنی مدت پوری کی لیکن وزرائے اعظم کو مدت پوری نہ کرنے دی گی اور حالیہ رجیم چینج بھی اسی کی ایک کڑی ہے یہ ساری تفصیل آپ کے سامنے رکھنے کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ جب ملک میں اتنا سیاسی عدم استحکام ھو گا تو کون سا ملک آپ کے ہاں انویسمنٹ کرے گا پھر اس میں ایک اور سب سے بڑی خرابی پچھلی گورنمنٹ کے ہر کام کو ہم نے بند کر دینا ہے چاہے وہ ملک و قوم کے لیے کتنا ہی اہم کیوں نہ ھو یہ کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ جو کروڑوں اربوں روپے ان منصوبوں پر لگ چکے ہیں ان کا کیا ہو گا اس سے ملک کا کتنا نقصان ہو گا یہ کسی نے نہیں سوچنا یہ ہماری بد قسمتی ہے اجتماعی اور قومی سوچ سے انحراف ہے اور ملک سے بے وفائی کے مترادف ہے غریب اور مجبور عوام کے ساتھ دھوکا فریب ہے کسی کو نیچا دکھانا مقصود ہے لیکن اس فعل سے دوسرے فریق کو تو فرق نہیں پڑتا البتہ پاکستان کو بہت فرق پڑتا ہے سیاسی جماعتوں کی اسی روش نے پاکستان کی معیشت کو ڈیفالٹ کے قریب کر دیا ہے حالیہ ضمنی الیکشن ہر دو صورت میں ملک کے لیے مزید عدم استحکام کا باعث بنیں گے جو بھی جیتا اس کا جشن اور مخالف سڑکوں پر سوچنے کی بات ہے کہ آیا یہ روش پاکستان کے لیے صحیح ہے یا یہ انداز پاکستان کو مزید پیچھے لے جائے گا جلسے جلوس کرنا ہر پارٹی کا حق ہے لیکِن ہر ہار کو دھاندلی کی نظر کر کے سڑکوں پر نکل آنا ملکی مفاد میں نہیں اس روش کو بدلنا ہو گا انڈیا نے یہ معاشی استحکام سیاسی جماعتوں پر اعتماد الیکشن کمیشن کو آزاد اور خود مختار بنا کر سیاسی استحکام پیدا کرنے کے بعد حاصل کیا ہے ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی کڑوی گولی کھانا پڑے گی پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے سب جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ایک آزاد و خودمختار الیکشن کمیشن بنانا ہو گا اور پھر اس کے نتائج تسلیم کرنا پڑیں گے اور جیتنے والی جماعت کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ہو گا اس طرح سیاسی استحکام لا کر معاشی استحکام کی طرف بڑھنا ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں