معاشرے کے ناسور اور پنجاب پولیس کے کارنامے

ارئین کرام!یہ تب کی بات ہے جب موجودہ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن میں ہوتے تھے اور ان کے پاس گنی چنی سیٹیں ہوتی تھیں، ہر دوسرے روز تگڑا سا بیان داغنا، ٹویٹ کرنا اور پریس کانفرنس کیساتھ ساتھ کنٹینر شریف کے ہمراہ کبھی یہاں اور کبھی وہاں جلسے جلوس کرنا ان کا معمول تھا، اکثر وبیشتر یہ الفاظ سننے کو ملتے تھے کہ پنجاب پولیس گُلو بٹ ہے اس میں میاں برادران نے گلو بٹ بھرتی کررکھے ہیں، میں اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے ان کو سیدھا کروں گا، اصلاحات میری اولین ترجیحات میں شامل ہوگی اور جتنے بدمعاش پولیس والے ہیں جنہوں نے ہمارے کارکنوں پر ظلم کیا،ماڈل ٹاؤن میں ظلم کیا ان سب کا کڑا احتساب کروں گا، ان سے بدلہ لوں گا، مگر یہ کیا؟؟ اقتدار میں آتے ہی ماڈل ٹاؤن میں نامزد ملزمان کو عہدوں سے نوازا، خاتون اول کی فیملی (سابقہ فیملی) کو روکنے پر پولیس افسر کیخلاف کاروائی کی، ساہیوال میں دن دیہاڑے گولیاں مارنے والوں کیخلاف کوئی کاروائی نہ ہوئی، اصلاحات نہ ہوئیں، گلو بٹ پہلے سے زیادہ کھل کر سامنے آگئے، گوجرخان تھانے میں تشدد کر کے ایک شخص کو مار دیا گیا، پولیس چوکی قاضیاں میں ایک اتھرے ٹرینی سب انسپکٹر نے شہری کی ٹانگ توڑ دی، کلرسیداں کی حدود میں سابق کونسلر کو پولیس نے قتل کیااور مرکزی ملزم تاحال گرفتار نہ ہوا ہے، اس کے علاوہ متعدد ایسے واقعات ان تین سالوں میں ہو چکے ہیں جو ناقابل برداشت ہیں مگر اقتدار ایسا نشہ ہے کہ ساری تقریریں، جلسے، بڑھکیں بھلا دیتا ہے، یہ کچھ تاریخ تھی جو میں نے آپ قارئین کے گوش گزار کی ہے، اب آتے ہیں اس تحریر کے ٹائٹل یعنی موضوع سخن کی جانب، معاشرے کے ناسوروں نے جب سے عوام کی رگوں میں زہر گھولنا شروع کیا ہے تب سے اب تک ان کو کہیں نہ کہیں پولیس کی پشت پناہی، سیاسی و سماجی قائدین و عمائدین کی پشت پناہی اور تو اور صحافت اور وکالت جیسے مقدس شعبوں کی پشت پناہی بھی حاصل رہی ہے، بالخصوص پنجاب کا کوئی تھانہ ایسا نہیں ہے جہاں پر کسی نہ کسی سطح پر منشیات فروشوں، قمار بازوں کی پشت پناہی نہ کی جاتی ہو، اسی وجہ سے منشیات جیسے زہر اور خودکشی کی ایک قسم سے ہماری نوجوان نسل بھی محفوظ نہیں رہی ہے، اگر پولیس موثر کارروائیاں کرے تو کچھ بعید نہیں کہ معاشرے سے یہ ناسور جڑ سے اُکھاڑ کر پھینکے جا سکتے ہیں، لیکن اس کیلئے مناسب حکمت عملی اور اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، موجودہ حکومت پنجاب نے ابھی تک پولیس میں اصلاحات کیلئے کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا جو ان کی عوام دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے، کیونکہ اگر یہ پنجاب پولیس میں اصلاحات کر دیں تو پھر ان سیاسی کھڑپینچوں کے ہاتھوں سے پنجاب پولیس نکل جائے گی، پھر نہ کسی کی سفارش چلے گی اور نہ کسی کی ضمانت، پھر پولیس بااختیار ہوجائے گی، پنجاب پولیس ایک اچھا ادارہ بن سکتاہے مگر اس کیلئے اصلاحات بہت ضروری ہیں، جب ایک کانسٹیبل، سب انسپکٹر، اسسٹنٹ سب انسپکٹر، ایس ایچ او، محرر سے آپ نے 18/20 گھنٹے ڈیوٹی کرانی ہے تو پھر لامحالہ اس کی طبیعت میں چڑچڑا پن آئے گا پھر وہ سائلین سے بھی بدتمیزی سے پیش آئے گا کیونکہ وہ افسران کے سامنے تو جی سر کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتا، اسی طرح اگر ان کو سہولیات بہم پہنچائی جائیں تو کچھ بعید نہیں کہ یہی پولیس ملازمین عوام کے خیرخواہ بن جائیں اور معاشرے کے ناسوروں کے خلاف ایسی موثر کارروائیاں کریں کہ معاشرے کا امن بحال ہوجائے، دوسری جانب قمار بازوں نے ہر جگہ پنجے گاڑ رکھے ہیں اور لوگ اپنی جمع پونجی سے محروم ہورہے ہیں، بہت کم ایسی کارروائیاں سننے کو ملتی ہیں کہ جہاں کوئی موثر کریک ڈاؤن کیا گیا ہو ورنہ مرغوں کی لڑائی اور چند ہزار روپے پکڑے جانے کی معمول کی کارروائیوں نے بس صفحے کالے کرنے ہوتے ہیں، قمار بازی کے بڑے
بڑے اڈوں کی جانب پولیس رُخ نہیں کرتی اور وہاں پر کئی لوگ صرف اندھے لالچ کی بناء پر اپنی زندگیاں داؤ پر لگا دیتے ہیں، اپنے مکانات گروی رکھ دیتے ہیں، کئی ایسے واقعات گوجرخان میں سننے کو ملے کہ لوگ اپنی کروڑوں روپے کی پراپرٹیز سے محروم ہو گئے، منشیات اور قمار بازی کے بڑے بڑے اڈوں اور بڑے بڑے ڈیلرز کے خلاف کارروائیاں نہ ہونے سے معاشرے میں یہ زہر گھل رہاہے اور اس کے اثرات ہماری نوجوان نسل پر پڑ رہے ہیں جو ایک الارمنگ صورتحال ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتیں اپنا سنجیدہ کردار اداکریں، قانون سازی کریں، اصلاحات کریں اور کم از کم پولیس کو ہر قسم کی مداخلت سے پاک کریں تاکہ عوام کو ہر قسم کا تحفظ حاصل ہو سکے، راولپنڈی پولیس میں سی پی او احسن یونس نے جس انداز میں محکمانہ احتساب اور عوام پولیس دوستی کے کام کئے ہیں ان کی پورے پنجاب میں کہیں مثال نہیں ملتی اور ان کو بہرحال کریڈٹ دینا بنتاہے اور انہوں نے واقعی ثابت کیا کہ وہ ایک قابل ترین افسر ہیں، اگر ایسے افسران پنجاب پولیس میں بکثرت پائے جائیں تو پولیس کا امیج کافی حد تک بہترہوسکتاہے۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں