ہر دور اور ہر تہذیب میں قوم کی طاقت کا اندازہ صرف اس کے مال و دولت، لشکروں یا سیاست سے نہیں لگایا گیا بلکہ اس کی عورتوں کے کردار اور صلاحیت سے لگایا گیا ہے۔ عورت صرف معاشرے کا حصہ نہیں، بلکہ اس کی روح، بنیاد اور دھڑکن ہے۔ اگر معاشرہ ایک عمارت ہے تو عورت اس کی بنیاد ہے؛ اگر وہ ایک درخت ہے تو عورت اس کی جڑیں ہیں۔ مضبوط، تعلیم یافتہ اور بااختیار عورتوں کے بغیر کوئی معاشرہ حقیقی معنوں میں ترقی نہیں کر سکتا۔عورت کا کردار قوم کی تعمیر میں کوئی نیا یا جدید نظریہ نہیں بلکہ ایک ازلی حقیقت ہے۔ یہ وہ سچائی ہے جسے انسانی تاریخ کے ہر دور نے تسلیم کیا ہے اور جسے اسلام نے چودہ صدیوں قبل واضح طور پر بیان کیا۔ اسلام نے اس وقت عورت کو عزت، حقِ تعلیم، وراثت، جائیداد اور احترام دیا جب دنیا اس کے وجود پر بھی سوال اٹھا رہی تھی۔ یہی حقوق اسلامی تہذیب کی اخلاقی اور سماجی بنیاد بنے۔
ابتدائی اسلامی معاشرے کی ستون عورتیں
اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں عورتیں خاموش تماشائی نہیں بلکہ ایمان، علم، اور معاشرتی تعمیر میں فعال کردار ادا کرنے والی شخصیتیں تھیں۔حضرت خدیجہؓ نبی کریم ﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ:تاریخ کی عظیم ترین خواتین میں شمار ہوتی ہیں۔ وہ نہ صرف ایک وفادار بیوی اور مشفق ماں تھیں بلکہ عرب کی کامیاب ترین تاجرہ بھی تھیں۔ ان کی دانشمندی، دولت، اور نبی ﷺ کے مشن میں ان کی غیر متزلزل حمایت اسلامی معاشرے کی بنیاد بنی۔ پہلی وحی کے وقت انہی نے نبی ﷺ کو تسلی دی اور اسلام پر سب سے پہلے ایمان لائیں۔ ان کی زندگی اس حقیقت کا مظہر ہے کہ عورت کی اقتصادی و اخلاقی قوت معاشرے کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔حضرت عائشہؓ نے اسلامی علمی دنیا کو نئی جہت بخشی۔ وہ اپنی ذہانت، فصاحت، اور حدیث و فقہ میں مہارت کے باعث اسلامی تاریخ کی عظیم عالمہ شمار ہوتی ہیں۔ ان کے بیان کردہ احادیث اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہیں۔ انہوں نے مردوں اور عورتوں دونوں کو علم دیا اور دین، اخلاق اور قانون کے شعبوں میں رہنمائی فراہم کی — یہ ثابت کرتے ہوئے کہ علم کی جستجو صنف کی محتاج نہیں۔
حضرت فاطمہؓ نبی ﷺ کی صاحبزادی‘ طہارت، تقویٰ، اور سادگی کی علامت تھیں۔ ان کی زندگی ایمان، صبر اور خلوص کی مثال ہے۔ ایک بیٹی، بیوی اور ماں کی حیثیت سے ان کی سیرت آج بھی مسلمان خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
علم و تہذیب کی معمار خواتین
اسلامی تاریخ میں صرف ابتدائی دور ہی نہیں بلکہ صدیوں تک مسلم خواتین نے علم، سائنس، اور ثقافت کے میدانوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔فاطمہ الفہری:نویں صدی عیسوی کی ایک عظیم مسلمان خاتون نے مراکش کے شہر فاس میں جامعہ القرویین کی بنیاد رکھی، جو آج بھی دنیا کی قدیم ترین مسلسل کام کرنے والی یونیورسٹی کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے۔ ان کی بصیرت نے ثابت کیا کہ عورت نہ صرف علم کی طالبہ ہے بلکہ علم کی معمار بھی ہے۔رفیدہ الانصاریہؓ: اسلامی تاریخ کی پہلی نرس اور سرجن — نے نبی کریم ﷺ کے دور میں زخمیوں کی خدمت کی، طبی کیمپ قائم کیے، اور دیگر خواتین کو علاج کی تربیت دی۔ ان کی خدمات ہمدردی، خدمت اور پیشہ ورانہ مہارت کی اعلیٰ مثال ہیں۔اسی طرح لبنیٰ قرطبہ، جو دسویں صدی اندلس میں ریاضی دان اور کاتبہ تھیں، قرطبہ کی عظیم لائبریری کی نگران تھیں۔ ملکہ اروٰی الصلیحی (یمن) نے بارہویں صدی میں دانشمندی، عدل، اور تعلیم کے فروغ کے ذریعے ایک مثالی حکومت قائم کی۔
ماں: قوم کی پہلی معلمہ
اگر تعلیم قوموں کی ترقی کی کنجی ہے تو ماں کی گود انسانیت کا پہلا مکتب ہے۔ ہر قائد، مفکر، اور مصلح نے اپنی تربیت ایک ماں کی آغوش سے پائی۔ ماں صرف جنم نہیں دیتی — وہ کردار تراشتی ہے، اقدار سکھاتی ہے، اور اخلاقی بنیادیں رکھتی ہے جن پر معاشرے قائم ہوتے ہیں۔اسلام نے ماں کے اس مقام کو تسلیم کرتے ہوئے فرمایا:”جنت ماں کے قدموں تلے ہے” یہ صرف محبت کا اظہار نہیں بلکہ اس بات کی اعتراف ہے کہ ماں اگلی نسل کے اخلاقی و روحانی خدوخال طے کرتی ہے۔ایک تعلیم یافتہ اور بااخلاق عورت نہ صرف خود کو بلند کرتی ہے بلکہ اپنے خاندان، معاشرے، اور قوم کو بھی اوپر لے جاتی ہے۔
عصرِ حاضر کی خواتین: ورثے کی امین
آج بھی مسلم دنیا میں ایسی خواتین موجود ہیں جو اپنے کردار سے اس روشن روایت کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ڈاکٹر عذیبہ کمالالزمان (ملائشیا) عالمی سطح پر معروف متعدی امراض کی ماہر نے طب اور صحتِ عامہ کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔شیخہ لبنیٰ القاسمی (متحدہ عرب امارات) پہلی خاتون وزیر نے تجارت، معیشت، اور فلاحی میدانوں میں قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں۔پاکستان میں بھی خواتین نے علم و سائنس کے میدانوں میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ ڈاکٹر نرگس ماولوالا، ایم آئی ٹی کی ڈین اور معروف ماہر فلکیات، نے کششِ ثقل کی لہروں کی دریافت میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر ثمینہ قادر، فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر، نے خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔
رکاوٹیں اور ان کا خاتمہ
اگرچہ کامیاب خواتین کی مثالیں بے شمار ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ آج بھی لاکھوں مسلمان عورتیں تعلیم، روزگار، اور سماجی مساوات سے محروم ہیں۔اسلام نے واضح فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔لہٰذا عورت کو تعلیم دینا کوئی جدید اصلاح نہیں، بلکہ ایک دینی فریضہ ہے۔ حکومتوں، خاندانوں، اور معاشروں کو چاہیے کہ وہ خواتین کے لیے تعلیم، صحت، اور معاشی مواقع فراہم کریں۔ جب عورت بااختیار ہوتی ہے، تو غربت کم ہوتی ہے، علم بڑھتا ہے، اور معاشرہ مضبوط ہوتا ہے۔
گھر اور بیرونی دنیا
عصرِ حاضر کی عورت کے لیے سب سے بڑا چیلنج گھر کی ذمہ داریوں اور پیشہ ورانہ زندگی کے درمیان توازن ہے۔ اسلام نے عورت کو گھر تک محدود نہیں کیا، بلکہ اسے ہر میدان میں حصہ لینے کی اجازت دی۔عورت ایک وقت میں محبت بھری ماں، محنتی سائنسدان، مشفق بیٹی، اور مضبوط قائد بن سکتی ہے۔ اس کی اصل قوت اس کے توازن میں ہے وہ گھر کو بھی سنوار سکتی ہے اور دنیا کو بھی۔
اجتماعی ذمہ داری کی پکار
عورتوں کو بااختیار بنانا کوئی احسان نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری ہے۔ جب ہم عورت کو تعلیم دیتے ہیں تو ہم ایک پوری نسل کو روشن کرتے ہیں۔ جب ہم اس کے حقوق محفوظ کرتے ہیں تو ہم اپنی قوم کی اخلاقی بنیاد مضبوط کرتے ہیں۔ہر عورت تعلیم، صحت، تحفظ، اور معاشی مواقع کی حق دار ہے۔ جب عورت بلند ہوتی ہے تو خاندان بلند ہوتے ہیں، اور جب خاندان بلند ہوتے ہیں تو قومیں عروج پاتی ہیں۔
عورت: کل کی معمار
عورت محض فرد نہیں بلکہ ایک ادارہ، ایک معلمہ، اور ایک تہذیب ساز ہے۔ حضرت خدیجہؓ سے فاطمہ الفہری تک، حضرت عائشہؓ سے ڈاکٹر عذیبہ تک — تاریخ گواہ ہے کہ عورتیں ہمیشہ تبدیلی کی معمار رہی ہیں۔
اگر ہم حقیقی ترقی چاہتے ہیں چاہے وہ اخلاقی ہو، سماجی یا معاشی تو ہمیں عورت کو اس کا جائز مقام دینا ہوگا۔کیونکہ کوئی قوم اپنی عورتوں کے مقام سے بلند نہیں ہو سکتی۔
ڈاکٹر اقراء شمشیر