91

معاشرے میں عدم برداشت

آج ہمارے معاشرے میں برداشت کافقدان ہے لوگ جہاں دیگرمعاشرتی برائیوں کاشکارہیں وہاں ایک برائی عدم برداشت کی بھی ہے

سیاسی اختلافات ہوں یاکہ مذہبی یاپھرہمارے خاندان کے تلخ روئیے ہم اس معاملہ میں اپنے کسی بھی مخالف کی کسی بھی بات کو اول تو تسلیم کرنے کو تیار

ہی نہیں اگرکسی کی کوئی بات مجبور اًسننی پڑجائے یا کسی سے اختلاف رائے ہوجائے تو بہت سارے لوگ اخلاقیات کی حدودکوبھی بھول جاتے ہیں یہاں تک کہ بہت سارے گھر، لوگ اور خاندان اس برائی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں میاں بیوی کی آپس کی لڑائی ہویا پھرخاندان کی لڑائی، سیاسی لڑائی ہویا پھرمذہبی ان سب کی بنیادبھی یہی عدم برداشت ہے یوں لگتاہے لوگ ایک دوسرے سے دست وگریباں ہونے کو ہر وقت تیار دکھائی دیتے ہیں

ذرہ سی بات پرتعلق واسطہ، رشتہ داری حتی کہ مسلم معاشرے کا احترام بھی نظراندازکردیاجاتا ہے برے القاب سے پکارنا شروع ہوجاتے ہیں جبکہ قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ نے سورہ الحجرات میں مذاق اڑانے اوربرے القاب سے کسی کوبھی پکارنے سے منع کیاہے

حدیث مبارکہ میں مصطفیٰ کریم روف الرحیمﷺ نے ارشاد فرمایا مسلمان مسلمان کابھائی ہے ایک دوسرے مقام پرفرمایامسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں

عام طور پردیکھاجائے تو زیادہ ترتکلیف کاسبب یہ دونوں ذرائع بنتے ہیں جیساکہ زبان سے کسی کوگالی دینا برابھلاکہناعیب نکالنا،غیبت چغل خوری کرنا اورایسے الفاظ کاچناؤ کرناجس سے سامنے والاطیش میں آجائے

یا اسکی عزت نفس مجروح ہوجائے یاپھرہاتھ سے اس کو تکلیف دینا مارکٹائی کرناسامنے والے کوزخمی کرنااس کامالی جانی نقصان کرنا،چوری ڈکیتی کی نیت سے لوٹتے ہوئے کسی بھی شخص کوزخمی

یاموت کے گھاٹ اتارنا اسلام ان تمام معاملات میں بلکل واضح اپناجانداراورشاندار مؤقف رکھتاہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے جس نے کسی ایک انسان کوقتل کیاگویا اس نے پوری انسانیت کوقتل کیا

جس نے کسی ایک انسان کوبچایاگویااس نے پوری انسانیت کوبچایاپھرجان بوجھ کرانسان کوقیمتی جان سے محروم کرنے والے کیلئے قصاص کاقانون اسلام نے دیاہمارے پیارے نبی کریم روف الرحیمﷺکو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجاآپﷺکومشرکین مکہ نے اذیت وتکلیف سے دو چارکیا

آپﷺنے درگزرکیا انہوں نے مصائب کی داستان رقم کی آپﷺنے رحمت والامعاملہ کیا مشرکین نے آپﷺکوتکلیف پہنچانے کی ہرممکن کوشش کی لیکن رحمۃ اللعا لمین ﷺ نے معافی درگزر اوررحمت کی انتہاء کرتے ہوئے انہیں ناصرف معاف کیابلکہ کبھی بھی ان سے نا توبدلہ لیا

اورنااصحاب رسول ﷺسے بدلہ لینے کافرمایانبی اکرم شفیع اعظمﷺنے یہاں تک فرمادیاکہ اتنا کسی نبی کونہیں ستایاگیاجتنامجھے ستایاگیا اسلام بھی ہمیں یہی درس دیتا ہے اسی وجہ سے کہتے ہیں

عدم برداشت اس کمزور دماغی کیفیت کانام ہے جسے ناقابل برداشت بناکرانسان یکطرفہ فکروسوچ پیداکرکہ یک طرفہ فیصلہ کرنے پرمجبورہوجاتاہے اگرچہ اس کااسے بعد میں نقصان اٹھاناپڑجائے یاپھربعد میں پچھتاوے کے ساتھ ساتھ اسکی بھاری قیمت بھی چکانی پڑے انسانی تاریخ پرنظردوڑائی جائے

تواس عدم برداشت کی ابتداء تب ہوئی جب حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کوقتل کردیا تھاعدم برداشت کسی بھی معاشرے کیلئے ناسوربن چکاہے یہ معاشرے میں اخلاقیات امن وسکون،عزت واحترام، تقوی وطہارت،تمیزو تہذیب، ثقافت وکلچرکوتباہ کرنے

کے ساتھ ساتھ انسان کے مقام ومرتبہ کوبھی دیمک کی طرح چاٹ رہاہے ذرا سی بات پربغیرسوچے سمجھے کوئی بھی شخص کسی کوبھی قیمتی جان ومال سے محروم کردیتاہے دیگرشعبہ جات کی بہ نسبت سیاست میں عدم استحکام عدم برداشت کا رجحان بہت زیادہ ہے اس وقت سیاسی کارکن دشمنی الزام تراشی بہتان بازی گالم گلوچ لڑائی جھگڑا میں کسی کی کوئی بھی رعائیت کرنے کوتیارنہیں ہم نے شخصیت پرستی کوہی اپناعروج وزوال سمجھ لیاہے

جبکہ عوامی نمائندوں کوچاہئیے اپنے ان چاہنے والوں کواپنے ان کارکنوں کو سمجھائیں بتائیں،سکھائیں اوران کے تلخ رویوں کی اصلاح کریں انکوسمجھائیں ذاتیات کی بجائے نظریات سے اختلاف رکھیں اختلاف رکھیں

لیکن اخلاق کے دائرہ کارمیں رہتے ہوئے سیاسی ماحول میں کسی کے ذات،عیب وکمزوری کونااچھالیں بلکہ ان عیب کونظراندازکریں ان پر پردہ ڈالیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم شفیع اعظمﷺنے فرمایاجوشخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب چھپائے گا

اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کے گناہوں کوچھپالے گا ہمیں سنی سنائی باتوں کی پروا نہیں کرنی چاہیے بلکہ انکی تحقیق کرکہ اصلاح کرنی چاہیے لہذاسیاسی کشمکش ہویاکوئی اورمعاملہ ہمیں ہمیشہ سچ بولناچاہیے سچ کا ساتھ دینا چاہیے اگرچہ سچ والاہمارامخالف ہی کیوں ناہوکیونکہ سچائی نیک راہ پرچلاتی ہے

اور یہ راہ جنت کی طرف لے جاتی ہے ہمیں اپنے معاشرے میں اس عدم برداشت کی برائی کوختم کرنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے ہربندہ اپنے اردگرداپنی ہمت کے مطابق اصلاح کی کوشش کرے

کسی کی توہین تذلیل کرنے،تمسخراڑانے،سے بازرہے دینی تعلیمات کوعام کریں تہذیب وثقافت اخلاق واوصاف کو داؤ پرنا لگائیں خوب سمجھداری سے کام لیں اچھائی پھیلائیں

اچھائی پھیلانے کاذریعہ بنیں برائی سے خودبھی بچیں دوسروں کوبھی برائی سے بچانے کی بھرپور کوشش کریں بحیثیت مسلمان ہمیں اسی اچھے کردارکواجاگرکرنے کی اشد ضرورت ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں