مطالعہ قرآن پاک

عبدالجبارچوہدری/گزشتہ روز گورنر پنجاب چوہدری سرور نے ہفتہ شان رحمت العالمین کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیاکہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے مجھے بتایا کہ تین مرتبہ قرآن کریم پڑھا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ غیر مسلم کے مطالعہ کی اپروچ کیا ہے اللہ کا کلام جو ہمارے صادق اور امین نبیؐ خاتم الانبیا ء کی زبان اقدس سے جاری الفاظ کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ ہے د نیا میں رائج ہر زبان میں ترجمہ بھی موجود ہے علاقائی زبانوں میں بھی تراجم موجود ہیں۔اب ہم سب مسلمانوں پر ذمہ داری ہے کہ کس طرح ہم قرآن کریم با ترجمہ پڑھنے بعداز اں اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔آج تک ہم خطباء حضرات کی تقریروں اور اجتماعات میں بیان کردہ وعظ کے ذریعے قرآن کریم کے پیغام کو سمجھنے میں مصروف عمل ہیں وقت نکال کر کئی کئی گھنٹے بیٹھنے کے بعد مطلب کی بات پلے باندھ کر چل پڑتے ہیں نہ نوٹس لیتے ہیں نہ سوال ذہن میں لاتے ہیں نہ کسی آیت کو ازبر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ترجمہ یاد رکھنے کی زحمت۔ہر ایک کام سے بری الزمہ ہو کر اتراکر اسطرح گھوم پھر رہے ہیں کہ ہم سے زیادہ نہ تو کوئی علم رکھتا ہے اور نہ فہم۔قرآن کریم کی تلاوت ترجمہ کے ساتھ ایسا کام ہے جس کو کرنے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں باقاعدہ بھی اگر شروع کریں تو کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اوراس دوران بس ایک سمندرکی گہرائی ہوتی ہے اور اترنے میں شوق محسوس ہوتا ہے۔ اب جبکہ اجتماعات پر پابندی ہے اور ہر ایک کے پاس با ترجمہ قرآن کریم تلاوت کرنے کا بہترین موقع ہے گاڑی کے اندر اگر نسخہ موجود ہوتو وقت ملتے ہی تلاوت ترجمہ کے ساتھ کی جا سکتی ہے دکان‘مکان میں سامنے نسخہ جات رکھے جائیں۔ہماری جھجھک ہے کہ قرآن کریم کی با ترجمہ تلاوت نہیں کر سکتے کوشش کر کے دیکھیں باقاعدگی سے معمول تو بنائیں کسی اور طرف توجہ کہ ضرورت ہی نہیں رہے گی ہم نے جو مختلف النوع اذہان بنا رکھے ہیں بے سرو با دلائل ازبر کر رکھے ہیں ایک دوسرے پر طعن وتستیغ کے نشتر تان رکھے ہیں یہ سب ختم ہو جاتے ہیں جب تلاوت کے سوزوگداز اور ترنم میں ڈوبتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مزارات جو گوشہ تنہائی ہوتے تھے وہاں بیٹھ کر تلاوت کی جاتی تھی مسجد کے کونے اور اگلی صفیں قرآن کی تلاوت کرنے والوں سے بھری ہوتی تھیں ہماری قرآن کریم سے والہانہ محبتیں کیوں ماند پڑگئیں ہم نم آنکھوں سے تلاوت کرنے سے محروم کیوں ہو گئے اگر برطانیہ کا سیاستدان‘معروف وکیل اور وزیراعظم با ترجمہ قرآن پڑھتا ہے تو ہماری زندگیوں میں مطالعہ قرآن شامل کیوں نہیں؟

اپنا تبصرہ بھیجیں