مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں چین کی دھماکے دار انٹری 41

مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں چین کی دھماکے دار انٹری

ڈیپ سیک (DeepSeek) کی دھواں دار انٹری نے اے آئی کی دنیا میں ایک غیر معمولی ہلچل مچا دی ہے۔ یہ چینی لیبارٹری اپنے آر ون ماڈل کے ذریعے بڑے بڑے ٹکنالوجی کے دیوتاؤں کو ہلا کر رکھ چکی ہے۔
تصور کریں کہ ایک کمپنی جس نے 2023 میں آغاز کیا، اس نے جی پی ٹی 4 جیسے جدید ماڈل کو نہ صرف 1/100 لاگت پر تیار کیا(سو ملین ڈالر کی بجائے محض ایک ملین ڈالر میں تیار کر لیا) بلکہ معیار اور رفتار میں بھی پیچھے چھوڑ دیا۔


جب یہ خبر سلیکون ویلی تک پہنچی تو این ویڈیا کے شیئرز میں سترہ فیصد گراوٹ آئی جس سے مارکیٹ ویلیو میں تقریباً چھ سو بلین ڈالر کا خسارہ ہوا، اور لوگ اسے اے آئی کی دنیا میں ڈیویڈ بمقابلہ گولائتھ کا لمحہ قرار دینے لگے۔
ڈیپ سیک کی کہانی کا مرکزی کردار “لیانگ وینفینگ” ہے، جو ہیج فنڈ مینیجر ہونے کے ساتھ اسٹاک مارکیٹ میں پریڈکٹیو الگورتھم کے ماہر بھی ہیں۔ اس نے اپنا سارا منافع اے آئی ریسرچ میں لگا دیا۔ شروع میں جب اس نے این ویڈیا چِپس خریدنا شروع کیے تو لوگ سمجھے کہ یہ اس کی کوئی نیا شوق ہے، لیکن اس نے کوانٹ ٹریڈنگ کی مہارت کو اے آئی ٹریننگ میں بدل دیا۔

مضمون نگار ہیلتھ سروسز یونیورسٹی اسلام آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اپ مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں


اس کی ٹیم نے چِپس کو اس طرح بہتر کیا کہ جی پی ٹی فور جیسے ماڈل کو 100 ملین کے بجائے صرف 1 ملین ڈالر میں ٹرین کرلیا۔ خود اس کے بزنس پارٹنرز نے تسلیم کیا کہ وہ پہلے اسے پاگل سمجھتے تھے، مگر اب اسے جینئس مانتے ہیں۔
اوپن اے آئی کے جی پی ٹی فور پر نظر دوڑائیں تو مائیکروسافٹ کے دس بلین ڈالر، تین سو سے زائد انجینئرز اور سپرکمپیوٹرز کی مدد نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس ڈیپ سیک کے پاس صرف پچاس انجینئرز اور اپنے ہیج فنڈ کے منافع تھے۔


اس کے باوجود، ڈیپ سیک نے اپنا آر ون ماڈل اوپن سورس کردیا، تاکہ پوری دنیا کے ڈیویلپرز اسے اپنی ضروریات کے مطابق ڈھال سکیں۔ یہی وہ قدم تھا جس نے سلیکون ویلی کو ہلا کر رکھ دیا۔ سب پوچھنے لگے کہ اگر چین اتنی تیزی سے جدت لا سکتا ہے تو پھر امریکی کمپنیاں کس طرف کھڑی ہیں؟


اقتصادی اور سیاسی منظرنامہ بھی اس ترقی سے جڑا ہوا ہے۔ امریکہ نے چین کو اے آئی چِپس کی برآمد پر پابندی لگائی لیکن ڈیپ سیک نے ایمیزون کلاؤڈ اور اپنے ملک کے تیار کردہ چِپس استعمال کر کے ان رکاوٹوں کو باآسانی عبور کرلیا۔ بائیڈن انتظامیہ کی ساری منصوبہ بندی اس کے سامنے کمزور ثابت ہوئی۔ ٹرمپ نے ردعمل دیا کہ یہ جاگنے کا اشارہ ہے اور امریکہ کو ہر حال میں اے آئی کی دوڑ جیتنا ہوگی۔


دوسری جانب، چین نے اے آئی کے شعبے میں ضابطے نرم کیے جس سے وہاں جدت نے بھرپور فروغ پایا، جبکہ امریکی بیوروکریسی نے ترقی کی رفتار کو محدود کر دیا۔
مارکیٹ تجزیہ کاروں کے مطابق اے آئی انڈسٹری کو چھ سو بلین ڈالر کی آمدنی درکار تھی، لیکن ڈیپ سیک نے ثابت کیا کہ ساٹھ بلین ڈالر سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ نتیجتاً، جو کمپنیاں سو بلین ڈالر کے ڈیٹا سینٹرز بنا رہی تھیں، ان کے شیئرز اب پھٹتے غباروں کی طرح گر رہے ہیں، بالکل سنہ 2000 کے ڈاٹ کام کریش کی یاد تازہ کرتے ہوئے۔ البتہ یہ صرف آغاز ہے۔

اصل انقلاب تو سستے اور غیر مرکزی ماڈلز کا آئے گا جو ہر سمارٹ فون پر چلائے جا سکیں گے۔
جس طرح 2000 کے کریش کے بعد ایمیزون نے حقیقی ای کامرس انقلاب برپا کیا تھا، ویسے ہی ڈیپ سیک جیسی کمپنیاں اب اے آئی کو صرف ’’ہائپ‘‘ سے نکال کر حقیقی عملی دنیا میں لانا چاہتی ہیں۔ ڈاکٹروں کی تشخیص سے لے کر فیکٹریوں میں روبوٹس کے استعمال تک، اے آئی اب ہر میدان میں در آئے گی۔ لاگت اتنی کم ہو جائے گی کہ چھوٹے سے چھوٹا اسٹارٹ اپ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکے گا۔

لیانگ کا وژن واضح ہے کہ اے آئی کو ایک اشرافیہ کے کھلونے کے بجائے دنیا بھر کے افراد کی دسترس میں ہونا چاہیے۔ یہ محض ایک ماڈل یا ایپ نہیں بلکہ ایک بڑی ویک اپ کال ہے، جس میں نہ صرف ٹیکنالوجی بلکہ عالمی سیاست اور معیشت کا پورا توازن داؤ پر لگا ہوا ہے۔ تیار رہیں، کیونکہ اے آئی کی یہ انقلابی لہر ابھی صرف شروعات ہے۔محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں