مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک

14 اگست 1947ء کو برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی پاکستان دنیا کا وہ پہلا ملک تھا جو مذہب کے نام پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا پاکستان دو حصوں پر مشتمل تھا مشرقی اور مغربی دونوں حصوں کے درمیان سولہ سو کلومیٹر کا فاصلہ تھا دونوں کے آپس میں رابطے کا ذریعہ فقط سمندر تھا زمینی راستہ انڈیا سے ہو کر گزرتا تھا موجودہ بنگلہ دیش اس وقت کا مشرقی پاکستان انڈیا کے مشرق میں جبکہ پاکستان اس وقت کا مغربی پاکستان انڈیا کے مغرب میں واقع ہے اس کا رقبہ 147610مربع کلومیٹر ہے اس کی نوے فیصد آبادی مسلم ہے اس وقت اس کی آبادی تقریباً اٹھارہ کروڑ ہے قیام پاکستان کے چند ماہ بعد ہی جب اردو کو واحد قومی زبان قرار دیا گیا تو 10 دسمبر 1947 کو زبان کے مسئلہ پر ڈھاکہ کے سکولوں اور کالجوں کے طلبہ نے صوبائی سیکرٹریٹ کے سامنے بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کے حق میں مظاہرہ کیا اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ نفرت کا آغاز ہوا جس نے پاکستان کی وحدت میں پہلی دراڑ ڈال دی تھی وہ محب وطن تھے لیکن ساتھ ساتھ قوم پرست بھی آہستہ آہستہ ان پر قوم پرستی اور لسانیت پرستی غالب آ گئی جب اس مسئلہ نے سنگین صورتحال اختیار کر لی تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل 21 مارچ 1948ء کو مشرقی پاکستان کا دورہ کیا مشرقی پاکستان میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ واضح بیان دیا تھا کہ”پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہی ہو گی” یہی بیان انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے دہرایا اور ساتھ وضاحت بھی دی کہ بنگالی زبان کو صوبہ میں رائج کرنے میں کوئی ممانعت نہیں صرف قومی اور رابطہ زبان اردوہوگی اس وضاحت کے باوجود ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہنگامہ کرنے والے طالب علموں کا لیڈر بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمان تھا 1952ء میں اس وقت کے بنگالی نژاد وزیر اعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین کے بیان پر کہ ”پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہی ہو گی” بطور احتجاج ڈھاکہ میں 21 فروری 1952ء کو عام ہڑتال کی گئی تھی جس کے دوران مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ سے متعدد طلباء جا ں بحق ہو گئے تھے بنگالی زبان کی اس تحریک کو اس وقت فیصلہ کن کامیابی ملی جب 19 اپریل 1954ء کوایک بنگالی نژاد وزیر اعظم پاکستان محمد علی بوگرہ کی کابینہ کی منظوری کے بعد 7 مئی 1954 کو بنگالی زبان کو دوسری قومی زبان کادرجہ دے دیا گیا ادھر اس تحریک کو اب شہیدوں کا خون بھی مل چکا تھا چاہیے تو یہ تھا کہ اب ہماری قیادت ہوش نے ناخن لیتی لیکن ہم اسی ڈگر پر چلتے رہے اور ملک میں مارشل لاء لگ گیا اس دور میں ملک نے بحیثیت مجموعی ترقی کرنی شروع کی تو اب پھر آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں کیونکہ بنگلہ کی پٹ سن کی بہت پیداوار تھی جس کا ملک کی مجموعی آمدن میں بڑا اہم کردار تھا اسی لیے مشہور ہو گیا کہ مغربی پاکستان میں پٹ سن کی سڑکیں بنتی ہیں یعنی جو پیسہ ہم پٹ سن کے ذریعے کماتے ہیں اس سے وہاں سڑکیں بنتی ہیں 1964 کے صدارتی انتخابات میں مشرقی پاکستان نے محترمہ فاطمہ جناح کا بھر پور ساتھ دیا تھا لیکن دھاندلی سے ان کو ہرا دیا گیا یہ چھوٹی چھوٹی باتیں اب السر بننا شروع ہو گئیں ان باتوں کا مزید بتنگڑ بنانے میں اہم کردار ہمارے پڑوسی دشمن نے بھی ادا کیا وہ تو اسی موقع کی تلاش میں رہتا تھا وہ اپنی تقسیم ہنداور 1965 کی جنگ میں شکست کی خفت مٹانا چاہتا تھا اب وہ مزید طاقت اور مکاری کے ساتھ آگے بڑھنے لگا اور شیخ مجیب الرحمٰن کی شکل میں اسے ایک پیادہ مل گیا جو پہلے ہی قوم اور
لسانیت پرستی میں باولہ ہو چکا تھا وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا پہلے بنگلہ زبان پھر بنگالیوں کے حقوق کی آڑ میں چھپا رہا پھر بڑھتے بڑھتے مکمل صوبائی خود مختاری اور آخر میں آزادی تک پہنچ گیا اس نے 1970 کا انتخاب اپنے چھ نکات پر لڑا مختصراً چار نکات یہ ہیں 1۔وفاقی حکومت صرف دو محکمے یعنی دفاع اور امور خارجہ اپنے پاس رکھے گی 2-ملک کے دونوں بازوؤں میں دو علیحدہ مگر باہمی طور پر تبدیل ہو جانے والی کرنسی متعارف کرائی جائے۔مشرقی پاکستان کے لیے علیحدہ بینکنگ ریز روز قائم اور الگ مالیاتی پالیسی اختیار کی جائے 3- دونوں بازوؤں میں زرمبادلہ کی آمدنی کے لیے دو علیحدہ اکاؤنٹس ہونے چاہیں مشرقی پاکستان کی آمدنی کومشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی آمدنی کو مغربی پاکستان کے کنٹرول میں ہونا چاہیے4۔مشرقی پاکستان کے لیے ملیشیا یا ملٹری فورس کا قیام،اس الیکشن کے نتائج حیران کن تھے کیونکہ مجیب الرحمٰن نے بنگالیوں کو لولی پاپ دے کر اپنے سحر میں جکڑ رکھا تھا جس کا پول اسی کی حکومتی کارکردگی کی صورت میں سامنے آیا ناکامی پر خاندان سمیت قتل پوا کل نشستیں 300 مشرقی پاکستان 162 مغربی پاکستان 138 نتائج عوامی لیگ 160 اور پیپلز پارٹی 81 نشستیں جیتی اس طرح عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں اپنی عوامی حمایت ثابت کر دی اکثریت کے باوجود مجیب الرحمٰن کو حکومت بنانے کی دعوت نہیں دی گئی حالات مزید کشیدہ ہوئے دشمن پوری تیاری کے ساتھ اسی انتظار میں تھا اس نے اپنے فوجیوں کو سیولین کے روپ میں داخل کر کے حالات کو بے قابو کر دیا جسے مکتی باہنی کہتے ہیں قتل وغارت گری عصمت دری کے واقعات کر کے الزامات پاک آرمی پر لگا دیے جاتے اور ان کی خوب تشہیر بھی کی جاتی تاکہ عوام الناس میں مزید نفرت پیدا ہو سکے بھارت کی پشت پناہی کی بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی ان سارے واقعات کی تصدیق اب خود بھارت کا وزیر اعظم کر رہا ہے آزادی بنگلہ دیش کی بھر پور حمایت کرنے پر اٹل بہاری واجپائی کو بنگلہ دیشی وزیراعظم نے ایوارڈ سے بھی نوازا ہے 25 مارچ 1971 کو مجیب الرحمن کو گرفتار کر لیا گیا اس سے اگلے دن مجیب الرحمن کے اشارے پر 26 مارچ 1971 کو میجر ضیاء الرحمن(یہ وہی ہے جس نے سب سے پہلے فوج میں بغاوت کر کے اپنے کانڈر کرنل رشید جنجوعہ کو شہید کیا تھا اور بعد ازاں فوجی بغاوت کے ذریعے صدر بھی بنا) نے ریڈیو بنگلہ پر آزادی کا اعلان کر دیا اب ہندوستان بھی کھلم کھلا حمایت میں آچکا تھا اور حالات واقعات کو بڑھا چڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جارہا تھا آخر کار 4دسمبر کو جنگ شروع ہوئی اور 16 دسمبر 1971 کے دن جنرل نیازی نے اپنا پستول انڈین آرمی کے حوالے کر کے نہ صرف 93000 فوجی جوانوں کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا بلکہ اپنے ملک کا ایک بازو خود کاٹ کر اس کے حوالے کر دیا اس طرح مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں