مشرقی معاشرہ اور عورت

مرد وعورت ایک خاندان کی بنیادی اکائی ہے کئی خاندانوں سے مل کر معاشرہ تشکیل پاتا ہے ان دونوں میں سے ایک وجود کی بھی نفی پورے معاشرے کی نفی ہے یعنی کسی ایک کے وجود کے بغیر معاشرہ وجود میں ہی نہیں آ سکتا یہ دونوں معاشرے کی تشکیل بہبود،نشوونما کے لیے لازم و ملزوم ہیں پھر جو معاشرہ ان دونوں کے وجود سے معرض وجود میں آتا ہے اس کو خوبصورت‘خوب سیرت‘خوش اخلاق‘دلکش اور منفرد بنانے کے لیے ان دونوں نے باہمی مشاورت سے اپنی اپنی ذمہ داریاں تقسیم کرلی ہیں ان ذمہ داریوں میں سے اگر ایک بھی پہلوتہی برتتا ہے تو پورے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اس معاشرتی کردار میں کسی ایک فریق کو فوقیت حاصل نہیں ہر کوئی اپنے حصے کی ذمہ داریوں کو سرانجام دے رہا ہے ہر معاشرے کی کچھ اچھائیاں‘ خوبیاں اور روایات ہوتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس میں کچھ خامیاں بھی پائی جاتی ہیں ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اسے مشرقی معاشرہ کہتے ہیں جس کی بہت ساری خوبیاں ہیں اور کچھ خامیاں بھی ضرور ہیں جن سے کنارہ کشی اور فرار ممکن نہیں لیکن ان خامیوں کو بنیاد بنا کر پورے معاشرے کو ہی غلط کہہ دینا یہ انصاف کے منافی ہے جبکہ ہمارا مدمقابل معاشرہ مغربی معاشرہ ہے اس کی خوبیوں سے زیادہ خامیاں پائی جاتی ہیں چونکہ برائی ہمیشہ دلکش جاذب نظر دلفریب اور خوبصورت دکھائی دیتی ہے اور جلد ہی انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور اپنا دلدادہ بنا لیتی ہے تو اسی طریقہ سے ہمارا معاشرہ بھی اس کے سراب میں پھنستا جا رہا ہے مغربی معاشرہ افراط و تفریط کی بنا پر غیر متوازن ہو چکا ہے یہ معاشرہ سینکڑوں سالوں تک پاپائیت کے زیر اثر رہا جہاں پر بادشاہ سمیت کسی کو بولنے اور اعتراض کرنے کی اجازت نہیں تھی اس معاشرے کو کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے یہ پسا ہوا معاشرہ تھا سولہویں صدی میں مارٹن لوتھر کی اصلاح مذہب سے شروع ہونے والی تحریک بعد ازاں حصول حقوق اور بیسویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد اس میں اتنی تیزی آئی کہ وہ مکمل شخصی آزادی میں بدل گئی اس نے تمام معاشرتی حدود و قیود کو اپنے پاؤں تلے روند دیا معاشرتی نظم و نسق کو ہی تہہ وبالا کر دیا اور بات اتنی آگے نکل گئی اپنا کماؤ اپنا کھاؤ اور میرا جسم میری مرضی کا روپ دھار لیا اس طرح مغربی معاشرے میں خاندانی نظام کا دھڑن تختہ ہو گیا یہاں بچے پیدا ضرور ہوتے ہیں اور اکثر اوقات تو شادی سے پہلے بھی پیدا ہو جاتے ہیں لیکن پرورش کئیر ہاؤس میں پاتے ہیں یہاں پر ماں کا کردار ہی سرے سے ختم ہوگیا جو اولین درسگاہ تھی جہاں سے بچہ اخلاقیات محبت بھائی چارے کا درس لیتا ہے بوڑھے والدین اپنا بڑھاپا اولڈ ہاؤس میں بسر کرنے پر مجبور ہیں اولاد کی مرضی ہے تو ملنے کے لیے آجاتے ہیں ہر کسی کی زبان سے ایک ہی جملہ ادا ہوتا ہے ہم بچوں یا والدین کے لئے لیے اپنی پرسنل لائف کیوں خراب کریں ہم آزاد ہیں اور آزادی سے رہنا ہمارا حق ہے کسی کو بھی ہماری پرسنل لائف میں مداخلت کا کوئی حق نہیں والدین اپنے بچوں کو سرعام غلط کام کرتے دیکھ کر بھی انہیں منع نہیں کر سکتے ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت حاصل ہو چکی ہے یعنی یہ بگاڑ اپنی آخری حدود کو چھو چکا ہے جبکہ مشرقی معاشرہ اس کے بالکل الٹ ہے یہاں پر ایک مؤثر ترین خاندانی نظام موجود ہے جس کا ایک سربراہ ہوتا ہے جو خاندان کی ضروریات کا ضامن ہوتا ہے یہاں پر ہر شخص اپنی من مانی کا مالک نہیں ہوتا بلکہ تمام معاملات باہمی مشاورت سے طے ہوتے ہیں اسی وجہ سے یہاں پر خاندانی نظام باقی ہے باہمی پیار، محبت، الفت،ہمدردی، بھائی
چارہ پایا جاتا ہے ماں باپ بہن بھائی بیوی اولاد کے رشتے اور احترام باقی ہے اس معاشرے میں مرد وعورت نے اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں اور انہیں احسن طریقے سے نبھانے میں مگن ہیں اور دونوں اپنے اپنے محاذ پر خوش ہیں مرد نے خاندان کی معاشی ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے تو عورت نے اپنے گھر کو سنوارنے اس کی تزئین و آرائش اور اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت کی اور جہاں پر دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت پڑتی ہے تو بلا جھجک ایک دوسرے کے معاون و مددگار بن جاتے ہیں ایک سوال کہ عورت نے آخر گھر کی ذمہ داریاں ہی کیوں سنبھالیں وہ باہر بھی کام کر سکتی تھی عورت چھپی ہوئی چیز کو کہتے ہیں اورچھپی ہوئی چیز ہمیشہ بیش قیمت ہوتی ہے اس کی حفاظت کی جاتی ہے اگر سب کی نظروں میں آ جائے تو اس کی قدر و قیمت کم ہو جاتی ہے ہیرا کیوں بیش قیمت ہوتا ہے کیونکہ ہر ایک کی رسائی اس تک ممکن نہیں اگر ہر کسی کے پاس ہیراہو تو وہ ہیرا بیش قیمت نہیں رہے گا وہ عام پتھر بن جائے گا اگر عورت مغربی معاشرے کی طرز (مختصر ترین لباس بلا جھجک مردوں کے ساتھ میل جول)پر سامنے آ جائے گی تو عزت و احترام ناموس وقار سب کچھ کھو دے گی جہاں تک عورت کے حقوق کی بات ہے الحمدللہ ہمارے معاشرے میں عورت کو وہ تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں جن کی ایک عورت کو ضرورت یا خواہش ہوتی ہے مثلا تعلیم صحت ملازمت حقوق ملکیت پسند کی شادی وغیرہ اگر ایک یا دوفیصد معاملات اس کے برعکس ہوتے ہیں تو ان کو سامنے رکھ کر یہ کہ دینا عورت کو کوئی حق ہی حاصل نہیں ہے میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے شاید اس سے زیادہ یہ مردوں کے ساتھ پیش آتے ہوں لیکن وہ سامنے نہیں آتے یا لائے نہیں جاتے کیوں کہ اس سے ان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا کچھ معاملات کا تعلق لاء اینڈ آرڈر کے ساتھ ہے حقوق کے ساتھ نہیں جیسے چھوٹی عمر میں شادی، حراساں کرنا جائیداد میں حصہ نہ دینا وغیرہ یہ قانون کے نفاذ کی کمزوری ہے اللہ ہماری عزتوں کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھے اور سمجھ عطا فرمائے آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں