مسلم لیگی سیاست،تصویر نے لرزہ طاری کر دیا

طالب حسین آرائیں/کہا جاتا ہے کہ آگ اگر بے وقوفوں کے ہاتھ لگ جائے تو ارد گرد کی ہر چیز کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے بس ذہانت ہی اسے قابو رکھ سکتی ہے لیکن جہاں عقل وشعور ناپید ہو وہاں کیا جائے۔اپنے آپ کو سب سے زیادہ عقلمند، سمجھنے والا ممکن ہے اس سے زیادہ بے وقوف سمجھ لیا جائے جتنا دراصل وہ ہوتا ہے سردار بوٹا سنگھ کی پیشانی بری طرح زخمی تھی وہ ڈاکٹر کے کلینک کی جانب دوڑے جارہے تھے راستے میں ایک شاسنا نے ازراہ ہمددری احوال پرسی کی تو سردار صاحب نے بتایا بس جی زنبور سے دیوار میں کیل ٹھوک رہا تھا کہ لیکن کیل لگی نہیں تھی تمہاری بھابی آکر بولی زنبور سے کیل ٹھوک رہے ہو کبھی سر کااستعمال بھی کر لیا کرو بس سر سے کیل ٹھوکنے کی کوشش کی اور یہ حال ہوگیا۔سیاست میں ایک بات تو طے ہے کہ کچھ پانے کے لیے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔لیکن گوجر خان مسلم لیگ چند لوگ صرف پانے کی آرزو لیے پہلے سے موجود ناراضگیوں کو مزید ہوا دے رہے انہیں لوگوں نے 2018 میں مسلم لیگ کو اپنے غلط مشوروں کی بھینٹ چڑھایا اور مسلم کو گوجر خان میں تیسرے درجے کی جماعت بنا دیا۔بعض لوگ اپنی صلاحیتوں کا استعمال اپنے ہی قریبی احباب میں خرابیاں پیدا کرنے پر صرف کر دیتے ہیں ایسے لوگ اپنے متعین کردہ ہدف کو ہر صورت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے دوسروں کو راستے سے ہٹانا ضروری خیال کرتے ہیں فی زمانہ کوئی بھی شخصیت ایسی نہیں جو اپنے دل میں خواہشات نہ رکھتی ہو ہر شخص اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ہزار جتن کرتا ہے اور اس کوشش میں بعض اوقات انسان خود کو تماشہ بھی بنا لیتا ہے۔گوجر خان مسلم لیگ میں دھڑے بندی اب کوئی خفیہ راز نہیں ہے۔دونوں دھڑے خود کو مضبوط کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔راجہ جاوید اخلاص اور چوہدری افتخار وارثی گروپ دوسرے دھڑے کے چند افراد کے نزدیک نہ نظریاتی ہیں نہ ٹکٹ کے لائق۔جواز اس کا یہ پیش کیا جاتا ہے کہ2018میں افتخار وارثی کی جانب سے لیگی ٹکٹ ہولڈر کی مخالفت کی گئی۔لیکن یہ جواز پیش کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ جن لوگوں کی چھتری تلے بیٹھ کر وہ یہ فلسفہ جھاڑ رہے ہیں وہ لوگ 2013 میں سرعام کھل کر اپنی جماعت کے امیدواروں کی مخالفت اور اپنی ہی جماعت کے خلاف مخالف جماعتوں کے جلسے تک منعقد کرواتے رہے ہیں۔پارٹی ٹکٹ کے خواہاں یہ لوگ ذاتی مفاد کے لیے پارٹی میں انتشار پیدا کیے ہوئے ہیں۔چوہدری خورشیدزمان جو مسلم لیگ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے دعویٰ سے میدان میں اترے ہیں وہ پورس کے ہاتھیوں پر سوار ہوکر سیاست کی جنگ جیتنے کے خواہاں ہیں جس کا انجام باخیر ہوتا دیکھائی نہیں پڑتا۔اس دھڑے کی مضبوطی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس تحریر سے دو روز قبل راجہ جاوید اخلاص اور چوہدری افتخار وارثی کی اسلام آباد میں مسلم لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ سے ان کے دفتر میں ملاقات کی سوشل میڈیا پر وائرل ایک تصویر نے اس گروپ میں اس قدر بدحواسی پھیلائی کہ فوری ری ایکشن کے طورچند فیک اکاونٹ سے اپنے گروپ کے لوگوں کی پرانی تصویریں وائرل کر کے دوسرے گروپ کی تازہ تصویر سے پیدا ہونے والے تاثر کو کاونٹر کرنے کی کوشش کی گئی حالانکہ کہ اس بے وقوفی کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں تھی۔لیکن چوہدری افتخار وارثی جیسی میچورٹی شاید ہی مخالف گروپ کے کسی رہنماء میں ہو۔کہ الزام‘تنقید اور بے جا مخالفت کے باوجود ان کی جانب سے خاموشی اختیار کی جاتی ہے اور وہ وقت پر اپنے پتے کھیل کر مخالف کو چاروں شانے چت کر کے بھی طنزیہ بات نہیں کرتے۔افتخار وارثی سے سو اختلاف کیے جاسکتے ہیں لیکن ان کی زبان‘حرص اور نفس پر قابو پانے کی خدا داد صلاحیت سے انکار ممکن نہیں۔ان کی خاموشی بھی ان کے مخالفین کے لیے کسی تازینے سے کم نہیں ہوتی۔اس وقت بھی وہ مخالف لیگی گروپ کی طرح بے مقصد ایکٹویٹی کرنے اور مخالفین کو لعن طعن کرنے کے بجائے خاموشی سے اپنے کام میں مصروف ہیں۔اطلاع یہ ہے کہ گذشتہ دنوں مسلم لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء سے ملاقات مرکزی صدر میاں شہباز شریف کے حکم پر ہوئی۔جس میں راجہ جاوید اخلاص اور چوہدری افتخار وارثی کی شہباز شریف سے ٹیلی فون پربات بھی کروائی گئی جس میں لیگی صدر نے دونوں رہنماو¿ں کو آمدہ الیکشن کی تیاری شروع کرنے کا کہا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مخالف گروپ اس ملاقات کے حوالے سے اپنا ردعمل دینے کے بجائے خاموشی سے اپنی ایکٹویٹی کوجاری رکھتا لیکن کیا کہا جائے سیاست سے نابلد ان فلاسفروں کی جلد بازی کو جواس ملاقات کے بعد بننے والے تاثر کو کاونٹر کرنے کے لیے اس قدر بے چین ہوئے کہ پرانی تصویریں وائرل کر کے اور رانا ثنااللہ سے ملاقات والی تصویر پر جلے بھنے کمنٹ کر کے خود ہی اپنا تماشہ بنا لیا۔اے شخص عیب جوئی نہ کر کہ تیری عیب جوئی نہ کی جائے کیونکہ جس طرح تو عیب جوئی کرتا ہے اسی طرح تیری عیب جوئی کی جائے گی اور جس پیمانے پر تو ناپتا ہے اسی پر تیرے لیے ناپاجائے گا تو کیوں دوسروں کی آنکھ کے آنکھ کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتا تو کسی کو کیونکر کہہ سکتا ہے کہ لا میں تیری آنکھ کا تنکا نکال دوں۔یہ خود غرضی چھوڑو سب اپنی اپنی اپنی کوتاہیوں اور نادانیوں کا احساس و ادراک کریں اور اس کے ازلے کا مصم ارادہ کر لیں تو گوجر خان مسلم لیگ ناقابل شکست نظر آئے گی۔لیکن ایسا ہوتا دیکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ بے وقوفی کی سیاست تماشہ تو بنا سکتی ہے ہدف پورا نہیں کرسکتی۔ یہاں کافی لوگ موجود ہیں جو سر کا استمعال بوٹا سنگھ کی طرح سے کر رہے ہیں۔جس سے مسلم لیگ کی حالت بھی بوٹا سنگھ کی طرح ہوتی نظر آتی ہے۔افتخار وارثی کو جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں۔کہ وہ محبت اور مروت سے تو خود ہار مان سکتا ہے لیکن؟؟
اگر نشاں سفر تک کہیں نہیں؛ تو نہ سہی
میں رینگ رینگ کے یہ شب نہیں گذاروں گا
شکست سے میرا آخلاق اجبنی ہے ندیم
سحر ملے نہ ملے رات سے میں نہ ہاروں گا

اپنا تبصرہ بھیجیں