مسلم لیگ(ن) کی چپقلش،پیپلزپارٹی کی قیادت کارکنوں سے نالاں

کلرسیداں سے جاویدچشتی

مشتاق احمد یوسفی کا کہناہے کہ’’ چارپائی سے جوپراسرار آوازیں نکلتی ہیں،ان کا مرکز دریافت کرنا اتناہی دشوار ہے جتنا کہ برسا ت کی اندھیری رات میں کھوج لگانا کہ مینڈک کے ٹرانے کی آواز کدھرسے آئی یا یہ تشخیص کرنا کہ آدھی رات کو بلبلاتے ہوئے شیر خواربچے کے درد کہاں اٹھ رہاہے۔چراتی ہوئی چارپائی کو میں نہ گلِ نغمہ سمجھتاہوں،نہ پردہ سازاور نہ اپنی شکست کی آواز!درحقیت یہ آواز چارپائی کا اعلان صحت ہے‘‘حلقہ پی پی 2کی سیاسی چارپائی سے بھی کچھ ایسی ہی پراسرار آوازیں سنائی دے رہی ہیں،جنھیں کم ازکم اس حلقہ میں موجودسیاسی جماعتوں کے لئے علامتِ صحت قرارنہیں دیاجاسکتا۔
چیئرمین پاکستان مسلم لیگ(ن) ،سنیٹر راجہ محمدظفرالحق کے صاحبزادے راجہ محمدعلی ایڈووکیٹ سابق ممبر صوبائی اسمبلی کے جلسہ عام میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کا ایم این اے شاہد خاقان عباسی غیر حاضرپایا جاتاہے ،جبکہ شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں ہونے والے اجتماع میں راجہ محمدظفرالحق اور راجہ محمدعلی دکھائی نہیں دیتے ۔بعض لوگ اسے پاکستان مسلم لیگ(ن) کا اندرونی معاملہ قراردیتے ہیں اور بعض اسے مسلم لیگ(ن) کی صحت مندی کی علامت، لیکن پاکستان پیپلزپارٹی اسے اپنی کامیابی کی کلید باور کرتی ہے۔
اس حلقہ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاسی چارپائی سے اٹھنے والی آوازیں کہیں زیادہ پراسرار اور بھیانک ہیں،یہاں صورت حال اس قدر گھمبیر ہے کہ پارٹی کارکنوں سے پارٹی رہنما شدید ناراض دکھائی دیتے ہیں اور ان کاگلہ ہے کہ 75کروڑ کے ترقیاتی کام کروانے کے باوجود تحسین کا ایک لفظ سماعتوں کی نذر نہیں کیاگیا،الٹا تنقید کے نشتر نشانہ تاک تاک کر چلائے جاتے ہیں۔بھٹو کی سالگرہ کے کیک کی کٹائی کے موقع پر جوچھریاں اپنے ایم پی اے پر چلائی گئیں ،ان کی کربناکی کی گونج تاحال سنائی دے رہی ہے اور ان زخموں سے ابھی تک خون رس رہاہے۔دوسری جانب راجہ ریاست مرحوم کے صاحبزادے قمرمسعود راجہ اپنے باپ کی سیاسی گدی سنبھال چکے ہیں اور وہ بھی خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے ہیں اور حصہ بقدر جثہ کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں اور حلقہ پی پی 2کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی سے ٹکٹ کے طلب گار ہیں۔قمرمسعود راجہ اور موجودہ ایم پی اے کرنل شبیر اعوان میں سے ٹکٹ کس کے حصے میں آتاہے ،آئندہ چنددنوں تک فیصلہ ہوجائے گا،لیکن اس سیاسی چارپائی سے سنائی دینے والی چرچراہٹ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اونچی ہوتی جائے گی۔
اسی طرح ایک علیحدہ چارپائی پر راجہ صغیر احمد آسن مارے براجمان ہیں اور گزشتہ تین سال سے اپنی انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ان کی چارپائی سے بھی تندوتیز آوازیں سنائی دے رہی ہیں جو کہ صوبائی سطح پر پاکستان مسلم لیگ(ن) کی سماعتوں پر انتہائی ناگوارگزر رہی ہیں، جبکہ قومی سطح پر پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کو لوری کی طرح محسوس ہورہی ہیں،مستقبل قریب میں ایک بڑے جرگے کی شنید ہے جو معاملات افہام وتفہیم سے حل کرنے کی آخری کوشش کرے گا،لیکن تاحال دونوں جانب سے دانت پیسے جارہے ہیں ،غصہ ،آنکھوں میں دکھائی اور باتوں میں سنائی دے رہاہے۔
تحریک انصاف کا سونامی اس حلقہ میں کیا اثرات مرتب کرے گا اس کا فیصلہ تو پولنگ کے بعد ہی ہوگا،فی الحال اس چارپائی پر سابق تحصیل ناظم کہوٹہ طارق مرتضیٰ اور جسٹس (ر) طارق محمود چودھری کے بیٹے چودھری شہر یارطارق بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں ،سیاسی چرچراہٹ کی آوازیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے منعقدہ کارنر میٹنگ میں واضح سنائی دیتی ہیں۔پارٹی ٹکٹ کسے دیتی ہے ،اس کا فیصلہ چند روز تک ہوجائے گا۔جماعت اسلامی نے اس حلقہ میں اپنے امیدوار ابرار حسین عباسی کو ٹکٹ جاری کردیاہے ۔
جب یہ حلقہ پی پی 2نہیں بنا تھا ، تب سے لے کر آج تک اس حلقہ کی سیاسی تاریخ کسی بھی آزادامیدوار کے لئے حوصلہ شکن رہی ۔1988میں پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار چودھری محمدخالد 34245ووٹ لے کر کامیاب قرارپائے جبکہ ان کے مدمقابل آئی جے آئی کے سلطان ظہور اختر 25939ووٹ لے کر دوسرے نمبرپر رہے ۔شیر افگن قریشی آزاد امیدوار کے طور پر شریک ہوئے تھے جو کہ صرف 4715ووٹ لے سکے۔
1990میں شوکت محمودبھٹی آئی جے آئی کی جانب سے 39296ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ،جبکہ ان کے مدمقابل پی ڈی اے کے چودھری خالد محمود 27583ووٹ حاصل کرسکے۔1993میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چودھری خالد محمود نے 35761ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ،پاکستان مسلم لیگ(ن) کے امیدوار شوکت محمود بھٹی 35013ووٹ لے کر انتہائی معمولی مارجن سے شکست کھاگئے۔جماعت اسلامی کے عباس بٹ نے 2117ووٹ حاصل کئے تھے۔1997میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے امیدوار محمود شوکت بھٹی نے 38134ووٹ لے کر بھرپور کامیابی حاصل کی جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے چودھری خالد محمود 23622ووٹ حاصل کرسکے ۔
نئی حلقہ بندیوں کے بعد بھی اس حلقہ میں جیت کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے امیدوار کی ہوئی،آزاد امیدواروں کے پلے کچھ نہیں پڑا۔2002ء کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے امیدوار راجہ محمدعلی 37380ووٹ لے کر کامیاب قرارپائے،ان کے مدمقابل پاکستان پیپلزپارٹی کے کرنل شبیر اعوان 34222ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے ۔متحدہ مجلس عمل کے راجہ عبدالقیوم 4430،آزاد امیدوار احمد سعید طارق 3728اور ایک دوسرے آزادامیدوار محمدصدیق قریشی 320ووٹ کے ساتھ مایوس ہوئے۔
2008ء کے انتخابات میں اس حلقہ سے پاکستان پیپلزپارٹی کے کرنل شبیر اعوان 32816ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ راجہ محمدعلی (پی ایم ایل این)30962ووٹ لے کر صرف 1854ووٹوں سے شکست سے دوچار ہوئے ۔ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ(ق) کی جانب سے ایک باضابطہ اوردوبے ضابطہ امیدوار بھی سامنے آئے ،جن میں پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر راجہ نوشیروان اختر 12476جبکہ بلال یامین ستی آزاد امیدوار کے طورپر 23012ووٹ لے کر سیاسی حلقوں کو حیران کرگئے ۔تیسرے امیدوار برگیڈیئر (ر) رب نوازخان کا تعلق بھی مسلم لیگ(ق) سے تھا لیکن پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے آزادامیدوار کے طورپر صرف3619ووٹ حاصل کرسکے۔ایم ایم اے کی جانب سے عبدالشکور حمادی صرف 475ووٹ حاصل کرسکے تھے۔
2008ء کے انتخابات کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ اس حلقہ میں پاکستان مسلم لیگ کے ووٹ کہ بہتات ہے ۔مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ ہولڈر اور آزاد امیدواروں کو پڑنے والے کل ووٹ 70069بنتے ہیں جوکہ کل ووٹوں کا ایک تہائی ہے۔اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا اس حلقہ میں ووٹ بینک ایک مخصوص ہندسے تک محدود رہا ،2002کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ووٹ 34222تھے جوکہ 2008میں کم ہوکر 32816ہوگئے،اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ پیپلزپارٹی کو یہاں جب بھی فتح ہوئی مسلم لیگ کی اندرونی چپقلش یا مسلم لیگوں کی تعدادمیں اضافے کی وجہ سے ہوئی ۔
23012ووٹ لینے والے بلال یامین پاکستان مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ(ن) کا پلڑا بھاری دکھائی دیتاہے ۔سیاست اور کرکٹ بارے کوئی بھی تجزیہ حتمی نہیں ہوسکتا،جیت کس کا مقدربنتی ہے اس کے لئے ہمیں پولنگ کے بعد رزلٹ تک انتظار کی زحمت اٹھانا پڑے گی۔فی الحال سیاسی چارپائیوں سے اٹھنے والی چرچراہٹ سے لطف اندوز ہواجاسکتاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں