سر زمین فلسطین معصوم اور بے بس مسلمانوں کے خون سے سیراب ہو چکی ہے۔ پوری دنیا کے بچے کھلونوں کے ساتھ کھیل کر دل بہلاتے ہیں مگر فلسطینی بچے کھلونوں کے بجائے بارود اور بموں کی گونج سے گھروں کے اندر چھپ کر بیٹھنے پر مجبور ہیں
اور پورا دن اپنے والدین کی قبروں پر گریہ کر کے پوری دنیا کے لوگوں سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ انہیں کس جر م کی پاداش میں یتیمی کے عذاب سے دوچار اور ان کے والدین کو قتل کیا گیا؟صیہونی طیاروں اور توپوں کی بمباری سے ملبے کا ڈھیر بنے غزہ میں ٹوٹے پھوٹے درودیواروں کو شہداء کے نا موں سے مزین کیا جاتا ہے۔
گلی کوچوں میں بچوں کے قہقہے نہیں بلکہ دلوں کو چیر نے والی چیخیں امت مسلمہ کے بے حس حکمرانوں کے ضمیر جھنجھوڑنے کے لئے گونجتی ہیں۔ غزہ میں ملبے کے نیچے سے زندہ بچ جانے والوں اورات کی تاریکی کے قتل عام کے بعد خاندان کے یتیم بچوں کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں ان بچوں کے بارے میں جو کھیل کھیلاجا رہا تھا
اور آج وہ دیوار پر تصویر بن گیا ہے۔ غزہ کے بچے نئے کپڑے نہیں بلکہ اپنے خو ن سے غسل کر کے اپنے پروردگار کے دربار میں تحفہ شہادت سینوں پر سجا کر پیش ہوتے ہیں
اور یقینا مسلمان حکمرانوں خصوصاً عرب کے حکمرانوں کی شکایت کرتے ہوئے جنت الفردوس میں داخل ہوتے ہوں گے غزہ کے مسلمان نئے کپڑے،بچیوں کے لئے چوڑیاں اور بچوں کے لئے چاکلیٹ ٹافیاں نہیں بلکہ تابوت خریدتے اور تعریفی کلمات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ غزہ سمیت پورے خطے کو صیہونی دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے
مغربی کنارے کی صورتحال بھی ابتر ہے کیو نکہ ناجائز قبضے کی وجہ سے وہاں پتھروں پر خون کارنگ سو گواروں کے لباس میں ماتم کا رنگ بکھراپڑاہے فلسطینیوں کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھتے ہیں
خواہشات کے حصول کے لئے نہیں بلکہ صہیونی طیاروں کی بمباری اور اسنائپرز کی گولی سے نجات پانے اور قابض اسرائیلی فوجوں کے ظلم و بر بریت سے بچنے کے لئے اٹھتے ہیں غزہ میں موت کا کھیل جاری ہے وہاں موت کے سواکچھ بھی نہیں‘اہل غزہ کو معلوم نہیں کہ وہ کس دنیا سے ہیں؟ ایک ایسی دنیا جس میں ان کی جڑیں ہیں لیکن وہ لڑکھڑ اچکی ہیں اور ایک ایسی دنیا جس میں وہ رہتے ہیں
لیکن وہ انہیں پہچان نہیں پاتی بیگانے تو بیگا نے اہل غزہ کے مظلوموں کے لئے تو اپنے بھی بیگانوں سے بد تر ہو چکے ہیں۔اٹھاون اسلامی ممالک میں کوئی بھی ارض مقد س کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے لئے تیار نہیں ہر مسلمان حکمران کی خواہش ہے کہ کھلم کھلا اسرائیلی اور اس کے مظالم کی حمایت کرنے والے امریکی صدر کاآشیر یادانہیں مل جائے۔ سچ پوچھیں تو مسلمان حکمرانوں کی غیرت کا جنازہ نکل چکا ہے
کیونکہ انبیاء کی سر زمین فلسطین خون میں غلطان یزیان حال اپنی داستان الم سنارہی ہے لیکن یہ بے حس حکمران سننے کے لئے تیارنہیں غیروں سے گلہ کیا؟ اپنے کلمہ گو بھی گونگے بہرے اور اندھے بن چکے ہیں ایک لاکھ سے زائد زخموں سے چور ہیں شہداء میں پندرہ ہزار صرف بچے اور دس ہزار سے زائد خواتین ہیں
جس سے یہ نتیجہ اخذ کر نے میں کو ئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ اسرائیل مستقبل کے معماروں کو جنم دینے والی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنارہاہے تاکہ اسے آنے والے کل میں کسی مزاحمت کا سا منا نہ کرناپڑے بے حس مکار اور بے غیرت مسلم حکمران اس پیغام کو سمجھیں یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کریں
تاریخ کے جھروکوں میں جھا نک کر دیکھا تو سقوط بغداد پر نظر پڑی آج کے حالات سقوط بغداد سے کسی طور مختلف نہیں لیکن ایک بڑا فرق ضرور دکھائی دے رہا ہے سقوط بغداد کے لئے علما ء کرام کو مورودالزام ٹھہرایا جاتا ہے
کہ ان کے فروعی اختلا فات پر مناظروں کے سبب یہ دن دیکھنا پڑا لیکن آج تو پوری دنیا کے علماء فلسطین کے مسئلے پر یکسو اور اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں مگر سقوط غزہ (اللہ نہ کرے) کسی صورت میں مصلحتوں کے شکار مسلمان حکمران مظلوم فلسطینیوں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گئے
اس وقت فلسطینی تحریک مشکل ترین مرحلے سے گزر رہی ہے امریکی صدر کی بے جا حمایت سے ٹڈی دل صہیونیوں کے حوصلے بلند ہوئے انہوں نے جارحیت کے ایک نئے باب کا آغاز کر دیا ہے اسرائیلی عزائم اور سرگرمیا ں زیادہ خطرناک شکل اختیار کررہی ہیں
اب اسلامی ممالک بلخصوص عرب ریاستوں کو بے حسی کی چادر چھوڑنی پڑے گی ورنہ تاریخ لکھی جارہی ہے کہ عالم اسلام کی واحدایٹمی قوت پاکستان فلسطینیوں کی کوئی مدد نہیں کر سکی۔
لکھا جا رہا ہے کہ مصر کے پاس دریا ئے نیلم تھا اور غزہ کے باسی پیاس سے بلک رہے تھے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے پاس تیل کے وسیع خزانے تھے مگر غزہ کے ہسپتالوں اور ایمبولینسوں کے لئے ایندھن نہیں تھا تاریخ یہ بھی لکھے گی
کہ خلافت کا علمبردار ترکی نے اسرائیل سے ایک لمحے کے لیے بھی سفارتی تعلقات منقطع نہیں کئے نیز یہ کہ مسلم ممالک کے پاس طاقتور ترین فوجیں جدید اور وسیع جنگی سازو سامان موجودتھا لیکن اہل فلسطین کے حق میں کسی نے ایک گولی تک نہ چلائی عراق کے صدر صدام حسین مرحوم نے کہا تھا
کہ اگر آپ کے پاس ہتھیار اور اسلحہ ہو اس کے باوجود مسلمانوں پر کوئی ظلم وجبر کرے اور آپ خاموشی سے دفاع کریں تو آپ سے بڑھ کربے غیرت اس دنیا میں کوئی نہیں اس لئے اے مسلما ن حکمرانوں اگر تاریخ میں زندہ رہنا،آنے والی نسلوں اور بلخصوص اللہ کے غیض وغضب سے بچنا چاہتے ہو
تو بس بے حسی کو الوداع کر دو اور غیرت کا مظاہرہ کر کے سنجیدگی کے ساتھ زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی طے کریں وقت کا تقاضا اور فلسطین کے مقدمہ کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ممالک اور آئی سی کو بیان بازی کے بجائے غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کا جاندار پلیٹ فارم بنائیں
عالم اسلام اپنے وسائل صلاحیتوں ا ستعداد جغرافیائی وتزو یر اتی حیثیت واہمیت کا درست ادراک اور بہتر استعمال کر کے آزاد فلسطینی ریاست کے حصول کو یقینی بنائیں مسلمان دستر خوان پر پڑے تر نوالے کی طرح بھو کے صہیونیوں کے رحم وکرم پر ہیں اور مسلمان حکمران ستر چراغ کی طرح ریت میں اپنے سر دبا کر بیٹھے ہیں لیکن یہ سلسلہ اب زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ اگر مسلمان حکمران نہ جاگے تو عوام کے غیض وغضب کا سیلاب انہیں خس وخا شاک کی
طرح بہالے جائے گا اور آپ کا نا م و نشان بھی ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گالیبیا کے مرد آہن معمر قذافی مرحوم نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا تھا کہ فلسطینیوں کا قصہ تمام ہونے کے بعد شاموں اور لبنانیوں کی باری آئے گی۔ ان کے بعد مصر اوراردن کی باری ہے مصر اور اردن کی رکاوٹیں راستے سے ہٹانے کے بعد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر قبضے کے لئے خلیج کی جانب پیش قدمی ہو گی
تاکہ دریائے نیل سے فرات تک گریٹر سلطنت کا خواب پورا کیا جا سکے اور وہ دن دور نہیں اے مسلم حکمرا نو کہ جب تم ائر کنڈ یشنڈ محلات اور لگثرری گاڑیاں چھوڑ کر جان بچانے کے لئے صحرائے ربع الخانی کی جانب دوڑوگے جہاں تم بمباری سے پناہ اور نجات مانگوگے لیکن تمہیں نجات نہیں ملے گی۔
شمالی افریقہ کے عرب ممالک لیبیا الجزائر تیو نس مراکش اور موریطانیہ کی شامت آئے گی ان ممالک کی حکومتوں کو گراکر انہیں گریٹر اسرائیل کے تابع کر دیاجائے گا گریٹر اسرائیل منصوبے کے شر سے بچنے والا کو ئی نہیں سب ہی ان کے ہدف ہیں ہم اگر متحد نہ ہو ئے اور ایک مظبوط اقتصادی قوت نہ بن سکے تو ہم اس بھیانک منصوبے کا شکار بننے سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔