اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی کثیر تعداد موجود ہے‘ اسلامی ممالک کی ایک طویل فہرست موجود ہے‘ خودمختاری کے دعوے موجود ہیں‘ مال ودولت کی وافر مقدار موجود ہے‘ذخائر اسباب ایٹمی ہتھیار اسلحہ افواج سمیت دنیاکی ظاہری طاقت مسلمانوں کے پاس موجود ہے‘لیکن اس سب کے باوجود مسلمانوں کو ظلم کی چکی میں پسا جارہاہے‘ مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہاء کی جارہی ہے‘ مسلمانوں کو ذبح کیا جارہاہے ان کو بارود میں اڑایا جارہاہے ان کی مساجد درس گاہوں کو خواتین کو بچوں اور نوجوانوں کو شہید کیا جارہاہے‘ ان کو ختم کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں ان سب باتوں پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر مسلمانوں کی اس قدرکثرت ہونے کے باوجود یہ حالات کیوں ہیں؟ ان کا حل کیا ہے اس کا سد باب کیسے ممکن ہے تو ہمیں بحیثیت مسلمان اپنے دین اسلام سے قرآن مجید سے اور احادیث مبارکہ سے راہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔
قرآن مجید میں سورہ نساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اور تم کو کیا ہواہے کہ اللہ کی راہ میں بے بس مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم کو اس شہرسے نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا سورہ انفال میں اگروہ دین کے بارے میں تم سے مدد طلب کریں توتم پر مددلازم ہے۔ سورہ حجرات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے بے شک مومن تو بھائی ہیں نبی کریم روف الرحیمﷺ نے ارشاد فرمایا مومن ایک جسم کی مانند ہیں جسم کہ کسی حصہ میں تکلیف ہوتی تو پورا جسم بے چین ہوجاتاہے۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نا اس پر ظلم کرتاہے اور نااسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایاایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔
حضرت انس سے روایت ہے فرمایا رسول اللہﷺ نے اپنے بھائی کی مدد کرو ایک اور حدیث مبارکہ میں رسول کریم روف الرحیمﷺ نے ارشاد فرمایا جب تمہارے بھائی تمہیں پکاریں تو ان کی آواز پر لبیک کہو۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے ایک مومن دوسرے مومن کیلئے عمارت کی طرح ہے اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو قوت پہنچاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے فرمایا رسول اللہﷺ نے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہے بس اس پر ناظلم کرے ناظلم ہونے دے جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے اللہ اس کی ضرورت پوری کرے گا جو شخص کسی مسلمان کی مصیبت دور کرے اللہ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے مصیبت دور کرے گاجو شخص کسی مسلمان کے عیب چھپائے اللہ قیامت میں اس کے عیب چھپائے گااب ان قرآنی آیات کو اور احادیث مبارکہ کو دیکھا جائے تو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ گہرا تعلق ثابت ہوتا ہے ایک مسلمان کی تکلیف دوسرے مسلمان کی تکلیف تصور کی جانی چاہیے لیکن اب معاملات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ اگر دنیا میں خاص کر اس وقت فلسطین میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے ان کو زخمی کرنے کے بعد علاج کی سہولت بھی قاتل اسرائیل ان سے چھین رہاہے ان کی کھانے پینے کی اشیاء ان مظلوموں تک پہنچنے میں یہ ظالم وقاتل روکاوٹ بن رہاہے مظلوم فلسطینیوں کے بچوں بوڑھے جوان حتی کے خواتین کو بھی نشانہ بنایاجارہاہے ایسے ایسے مناظر سامنے آرہے
ہیں جن کو کوئی بھی درددل رکھنے والا انسان دیکھ دیکھ کر آبدیدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتالیکن دنیابھرکہ مسلم حکمران بادشاہ اس ظلم پر ناصرف خاموش ہیں بلکہ ان سب کے باوجود ایسے ہیں گویا انہوں نے کچھ دیکھا نہیں سنا نہیں یاپھر اس سب کو جاننے کے باوجود انجان بنے ہیں آج پورا عالم کفر مسلمانوں کو ختم کرنے پر اکھٹا ہے لیکن مسلمان اکھٹے نہیں۔
حدیث شریف میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا قریب ہے کہ قومیں تمہارے خلاف دوسری قوموں کواس طرح بلائیں جیسے کھانے والے برتن کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں سوال کیاگیاکہ کیا اس وقت ہماری تعداد کم ہوگی فرمایا نہیں بلکہ اس روز تم زیادہ ہوگے لیکن جھاگ کی مانند ہوگے اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گااور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا سوال کیاگیا اے اللہ کے رسول وہن کیا ہے فرمایادنیاسے محبت اور موت سے نفرت۔۔
آج ساری صورتحال ہمارے سامنے ہیں اس حدیث شریف کے مطابق دنیا کے موجودہ تمام حالات و واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں کہ دنیاکہ مختلف مقامات پر مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہاہے بلخصوص فلسطین میں وہاں اسرائیل کے ظلم وستم جبر وتشدد اور جنگی ہتھیاروں کے دھویں سے نامساجد محفوظ ہیں نا مدراس ناسکول کالج نا ہسپتال اور ناہی کسی کاعام گھر وہاں ہرطرف عمارات کا ملبہ نظر آتاہے شہداء کی تعداد بڑھتی جارہی ہے لوگ زخمی ہیں لیکن علاج معالجہ کے لئے ان کے پاس ادویات نہیں بچے بھوک سے نڈھال ہیں لیکن ان تک اشیاء خوردونوش نہیں پہنچنے دی جارہی اب اسرائیل کا ظلم اسی تک محدود نہیں رہا بلکہ اب جوانسان دوست ہمدردی رکھنے والے لوگ مختلف ممالک سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں تک امداد پہنچانا چاہتے ہیں اسرائیلی دہشت گرد فوج کو وہ بھی برداشت نہیں انہیں بھی نشانہ بنارہا ہے
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہرمسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر یہ تکلیف محسوس کرے کہ دنیابھرمیں کہیں بھی بسنے والا مسلمان تکلیف میں ہوتو ہر مسلمان اس تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کرتے ہوئے اس کے ازالہ کی کوشش کرے مالی جسمانی ایمانی جیسے ہوجہاں تک ہو ان کی امداد کی جائے اور اس سے بھی بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کریں اور اس خطے پر موجود ناجائز قابض وقاتل اسرائیلی دہشت گرد ریاست کو روکنے کے ساتھ ساتھ اس کے خاتمہ کی بھی ہرممکن کوشش کریں۔