
قلعہ پھروالہ پوٹھوھار میں گکھڑ قبیلے کی ساڑھے سات سو سالہ حکومت میں بطور دارلاخلافہ ایک مرکزی مقام رکھتاہے کہوٹہ میں واقع یہ قلعہ کہ جسے سلطان پھروالہ کرنل سلطان ظہور اختر (مرحوم) نے سن 1980ء میں محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کیا۔ اس دشوار گزار علاقے میں روڈ اور بنیادی زندگی کی ضروریات مفقود تھیں اور علاقے کی حساسیت کی وجہ سے بھی قلعہ پھروالہ کی بحالی کے کام پہ توجہ ناں دی جا سکی اور گکھڑوں کا یہ ہیڈکوارٹر قلعہ پھروالہ زمانے کے حوادث کی بناء ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہا۔
پہلے یہ تاریخی مقامات پنجاب آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پاس تھے لیکن جب ان مقامات کو وفاق کے حوالے کیا گیا تو ان تاریخی مقامات کی تعمیر نو کے سلسلے میں سنجیدگی دیکھنے میں آئی اور ادارے نے وفاق میں موجود آثار قدیمہ کی سائیٹس کو محفوظ کرنے کیلئے پلاننگ اور فنڈز کی دستیابی وغیرہ کے امور پہ توجہ دیتے ہوئے عملی کام کا آغاز کر دیا کہ جس میں آجکل قلعہ پھروالہ سے منسلک باغ جوگیاں میں موجود مقبرہ سلطان مقرب خان، مسجد مائی قمرو وغیرہ کی بحالی شامل ہے۔گکھڑ آثار قدیمہ کے حوالے سے گکھڑ قبیلے کی نمائندہ تنظیم وفاقی محکمہ آثار قدیمہ کے ساتھ رابطے میں رہتی ہے تاکہ محکمہ اور برادری کے درمیان گکھڑ آثار قدیمہ کے حوالے سے موجود رابطے کو مربوط کیا جاسکے۔
اس سلسلے میں پاکستان گکھڑ فیڈریشن نے چیئرمین کرنل راجہ طارق کمال کی قیادت میں باغ جوگیاں (مسجد مائی قمرو، مقبرہ سلطان مقرب خان) اور قلعہ پھروالہ کا دورہ کیا کہ جسکے مندرجہ زیل بنیادی مقاصد تھے۔1 ۔بطور نماہیندہ تنظیم ساہیٹ پہ جاری تعمیر نو کے کام کا جاہیزہ لیا جا سکے۔2۔ محکمہ آثار قدیمہ اور مقامی آبادی کے درمیان تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔3۔ اپنے تاریخی مقامات کے اسٹیٹس کو تاریخی حوالے سے آشکار کیا جاسکے اور کسی بھی تاریخی ابہام کو دور کرنے کیلے اپنا کردار ادا کیا جا سکے۔4۔ وفاقی محکمہ آثار قدیمہ کے جاری کام کو سراہتے ہوئے انہیں سپورٹ فراہم کی جا سکے اور اگر کوئی رکاورٹ ہے تو اسے دور کیا جا سکے۔
پاکستان گکھڑ فیڈریشن کے اس وزٹ میں چیف آرگنائیر فائز اختر کیانی، راجہ خالد محمود کیانی، محمد عمر افضل کیانی، راجہ امجد کیانی (ایڈوکیٹ) راجہ عبید کیانی آف فیض آباد، راجہ شمعون کیانی آف شکرپڑیاں، جناب سجاد اظہر (مصنف / تاریخ دان) ارسلان کیانی (ایڈوکیٹ) کہوٹہ سے راجہ عنایت اللہ ستی، راجہ فاران اسلم ستی، راجہ حسنات کیانی، راجہ اخلاق اور راجہ حفیظ کیانی شامل تھے۔ وفاقی محکمہ آثار قدیمہ کے پروجیکٹ ڈائیریکٹر ڈاکٹر عبدالغفور لون کہ جو انتہائی پروفیشنل اور مخلص طبیعت کے مالک ہیں نے وفد کیلے ایک مفصل بریفنگ کا انتظام کر رکھا تھا اور آثار قدیمہ کی بحالی سے متعلق انکی اپروچ انتہائی متاثر کن تھی۔
آپ انتہائی تعلیم یافتہ ہیں اور چونکہ اپنے سبجیکٹ میں ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے۔ اس لیے افسر شاہی کی علتوں سے پاک ہیں اور اپنے ملنے والوں پہ اپنے درویشانہ صفت کا گہرا اثر چھوڑتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اس سائیٹ کے ایک ایک زمینی و تاریخی پہلو پہ گہری نظر رکھتے ہیں اس موقع پہ بریفنگ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مہمانوں کیلے ایک پرتکلف چائے و لوازمات کا انتظام بھی کر رکھا تھا کہ جس کیلئے ہم ڈاکٹر عبدالغفور صاحب اور انکی ٹیم کے تہہ دل سے مشکور ہیں۔ بریفنگ اور چائے کے دوران ہی ماحول ایسا خوشگوار بن گیا کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا اجنبیت کا پہلو ختم ہو چکا ہے
اور موقع پہ موجود تمام افراد ایک ٹیم کی صورت میں اس پروجیکٹ کی کامیابی کیلے سرگرداں ہیں اسکے بعد ہم نے دریائے سواں کو عبور کیا اور قلعہ پھروالہ کا رخ کیا کہ جہاں مقامی گکھڑوں نے پرتپاک انداز میں وفد کا خیر مقدم کیا۔ قلعہ پھروالہ میں مختلف مقامات کو دیکھنے کے بعد میرے محترم بھائی راجہ عبید کیانی نے تمام مہمانوں کیلئے ایک پرتکلف ظہرانے کا انتظام کیا ہوا تھاکہ جس کیلئے ہم تہہ دل سے انکے مشکورہیں اس موقع پہ محکمہ آثار قدیمہ اور مقامی آبادی کا آپس میں مزید اتفاق رائے پیداہوا
اور بھائی چارے کی اس فضاء نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ إنشاء اللہ محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے جاری کردہ یہ پروجیکٹس بااحسن طریقے سے آگے بڑھیں گے اور اس سے ٹواررزم کو فروغ حاصل ہو گا کہ جسکے ثمرات مقامی آبادی تک بھی پہنچیں گے۔ شام کوہم سب قلعہ پھروالہ سے واپسی کیلے باغ جوگیاں آئے اور آئندہ کیلئے بھی اس تعاون و بھائی چارے کی فضاء اور پروجیکٹ کی کامیابی کیلئے کچھ معاملات ڈسکس ہوئے کہ جن کاذکر آ ئندہ کسی تحریر میں کیا جائے گا۔