مسئلہ کشمیر کا معاملہ

قیامِ پاکستان کے اوائل ہی سے بھارت کے ساتھ دیگر تنازعات کے علاوہ مسئلہ کشمیر کا معاملہ بھی اس انداز میں شروع ہوا کہ بھارت دیگر آزاد ریاستوں کو زبردستی اپنے ساتھ ملانے کے ساتھ ساتھ کشمیر پر بھی قبضہ کرناچاہتا تھا۔ جبکہ کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی تھی۔1948 میں بھارت کے اُس وقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو اس معاملے کو اقوامِ متحدہ میں لے گئے جس میں یہ قرار داد پاس ہوئی کہ یہ معاملہ کشمیریوں کو استصوابِ رائے کا حق دے کرحل کیا جائے۔1949 میں بھارت نے آرٹیکل370 اور1954 میں آرٹیکل35-A لاگو کرکے کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت دی۔ جس کو مودی حکومت نے 5 اگست2019 کو ختم کرکے نہ صرف کشمیریوں کے حقوق سلب کرنے کی سازش کی ہے

بلکہ پورے خطے میں انتشارکی بنیاد رکھ دی ہے۔مودی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35-A کو ختم کرتے ہوئے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس متنازعہ اور مذموم فیصلے سے جموں و کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی علاقہ کہلائے گا جس کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہو گی اور لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا جائے گا جسے قانون سازی کا حق نہیں دیا گیا۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے راجیہ سبھا (پارلیمینٹ)میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کیا۔ اس بل پر قانون سازی کی جائے گی جس کی منظوری کے بعد کشمیر کی خصوصی حیثیت مکمل طور پرختم ہو جائے گی۔ بھارت کے اس اقدا م سے کشمیری تو سراپا احتجاج ہیں ہی مگر اس بار دنیا نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا ہے

۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس اور دنیا بھر کے بڑے بڑے شہروں میں بھارتی حکومت کے اس اقدام کے خلاف شدید احتجاج کیا گیابلکہ وہاں کی عوام نے کشمیریوں کے ساتھ بھرپور انداز میں اظہار یکجہتی کیا جو اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ انہیں اس مسئلہ کی شدت کا نہ صرف اندازہ ہے بلکہ اس حقیقت کو آشکار کرناہے کہ یہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی حل ہونا ہے۔ بھارت کا کوئی اقدام اس حوالے سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ مودی نے یہ قدم اٹھا کر نہ صرف بھارت کے حصے بخرے کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے بلکہ دنیا کے امن کو شدید خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو وفاق میں ایک خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ مقبوضہ کشمیر کو اپناآئین بنانے کی اجازت تھی اور متعدد معاملات میں بھارتی وفاقی آئین کا نفاذ جموں و کشمیر میں نہیں ہوتاہے۔ ریاست کا دفاع، امور خارجہ اور بیرون ملک سفر ہندوستان کے ذمہ ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان ریاست جموں و کشمیر کے کسی آئینی معاملے کو چیلنج کرنے یا ریاست کے حوالے سے قانون سازی کا مجاز نہیں ہے

۔ آرٹیکل 35-A کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے سوا بھارت کا کوئی بھی شہری یا ادارہ جائیداد نہیں خرید سکتااورریاست جموں و کشمیر میں صرف ریاستی باشندے ہی مستقل رہائش رکھ سکتے ہیں۔ غیر ریاستی باشندے جموں و کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتے، نہ ووٹ دے سکتے ہیں اور نہ ہی روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔ آرٹیکل 35A کی مزید وضاحت کرتے ہوئے دانش ارشاد اپنے ایک تحقیقی مضمون میں لکھتے ہیں کہ آرٹیکل 35-A در اصل اسی قانون کی توثیق تھی جو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے پیش نظر 1927 میں کئی وجوہات کی بنا پر لاگو کیا تھا یک وجہ یہ تھی مشرقی پنجاب کے زمیندار کشمیری لڑکیوں سے شادیاں کر کے زمینوں کے مالکانہ حقوق مانگتے تھے۔دوسری وجہ سرکاری نوکریوں میں پنجابی اور دیگر غیر ریاستی باشندوں کا غلبہ ہوتا جا رہا تھا اور تیسری اہم وجہ مہاراجہ کو یہ خوف تھا کہ کہیں
برطانوی افسران کشمیر کے خوشگوار اور حسین فطری نظاروں کی بناء پر مستقل رہائش اختیار نہ کر لیں۔
آئین370 اور 35-Aکی منسوخی سے مقبوضہ کشمیر کی تاریخی،جغرافیائی اور مذہبی صورتحال یکسر بدل جائے گی۔ مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت ختم ہو جائے گی اور وہاں غیر مسلموں اور غیر کشمیریوں کوبسایا جائے گاجو کہ کشمیریوں کے ساتھ ایک بہت بڑا دھوکا ہے۔

کشمیر میں آباد مسلم کشمیریوں کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہو جائے گا۔ بھارتی آئین کی اس شق کے ختم ہونے سے فلسطینیوں کی طرح اب کشمیریوں کابھی بے وطن ہو جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں غیرمسلم کشمیر میں آباد ہو جائیں گے جو ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہو جائیں گے۔ غاصب بھارت ہمیشہ سے یہی چاہتا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلم تعداد کم کی جائے یا پھر وہ ہندو مذہب اختیار کر لیں۔ جب ہر طرف سے ناکام ہوا تو اس نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کی گھناؤنی چال چلی ہے۔
آج کشمیری عوام جن حالات سے دو چار ہیں انہیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیری آزادی مانگ رہے ہیں اور آزادی مانگنا ان کا بنیادی حق ہے جس کو کوئی چھین نہیں سکتالیکن بھارت جنگی جنون میں مبتلا ہو کر خطے کو انتہائی خطرناک نتائج کی جانب دھکیل رہا ہے۔ بھارت نے غلطی کی تو جنگ کے نتائج آئندہ نسلوں تک کو بھگتنا ہوں گے۔ اب جو جنگ ہو گی اس سے پوری دنیا متاثر ہو گی کیونکہ بھارت کے اس اقدام نے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے ساتھ ہی پوری وادی میں عوام کا شدید احتجاج شروع ہو گیا۔

غاصب بھارت نے شدید احتجاج کو روکنے کے لئے عوام پر پیلیٹ گنز اور آنسو گیس کا استعمال کیااور اس کے ساتھ مہلک ہتھیاروں کے استعمال کی بھی اطلاعات آ رہی ہیں۔ اب تک سیکڑوں افراد زخمی اور لاتعداد شہید ہو چکے ہیں۔ اس احتجاج کو محدود رکھنے اور عوام کو بے خبر رکھنے کے لئے بھارتی افواج نے تمام ذرائع بند کر رکھے ہیں۔ ٹیلی ویڑن، فون اور انٹرنیٹ کی سروس بھی معطل کر دی گئی ہے۔ 5اگست سے کشمیر میں سخت کرفیو نافذ ہے۔ کوئی شخص گھر سے نکل نہیں سکتا۔ اگر کوئی بھوک سے بلکتے بچوں کے لئے دودھ کی تلاش میں نکلتا ہے تواسے گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کی آواز دبانے کے لئے اپنی فوج میں مزید اضافہ کر دیا ہے

۔ آج نو لاکھ فوج کشمیریوں پر بندوقیں تانے کھڑی ہے۔جموں و کشمیر کی جیلوں میں ہزاروں کشمیری قید کر دئیے گئے ہیں۔ حریت پسند لیڈر تو پہلے ہی جیل میں ہیں۔ اب بھارت نواز فاروق عبداللہ،عمر عبد اللہ، محبوبہ مفتی اور سجاد لون کو بھی جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔
بھارت کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کچلنے میں پوری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ وادی کشمیر کا بچہ بچہ آزادی کا پرچم اٹھائے متاعِ زیست کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے تیار نظر آتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر ایک عالمی تنازعہ ہے اور اس کی حیثیت تبدیل کرنا قانونی و اخلاقی جرم ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ ا پاکستان کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اعلان کو مسترد کرتا ہے۔کور کمانڈرزکانفرنس میں بھی واضح کیاگیا کہ جموں و کشمیر پر بھارتی تسلط کو قانونی بنانے والے آرٹیکل 370 یا 35-Aکو پاکستان نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا۔ اب بھارت نے خود ہی اس کھوکھلے بہانے کو ختم کر دیا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنے قبضے کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے ہر قسم کے فسطائی اور آمرانہ حربے استعمال کر رہا ہے

تاکہ کشمیر پر غاصب بھارت کی بالادستی قائم رہے اوربھارت کی ہوس ملک گیری کے جذبہ جنون کو تسکین ملے۔ وہ پاکستان کے استحکام اور سا لمیت کے لئے دائمی خطرہ پیدا کرنا چاہتا ہے۔بھارتی ظلم اور سفاکیت کے خلاف کشمیری عوام اور
پاکستان کی مزاحمت جاری ہے اور آزادیِ کشمیر تک جاری رہے گی۔ مودی سرکار کی افواج وادی میں جدوجہد آزادی کو کچلنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔ عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت اور ظلم و ستم کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں