کچھ فیس بکی ناقدین اور خودساختہ مشاہیران و تجزیہ نگاران واٹس ایپ یہ اعتراض کررہے ہیں کہ پنجاب کے وزیر اعلی نے چین جاکر کر اٹک اٹک کر منہ ٹیڑھا کرکے پرچی میں دیکھ کر انگریزی زبان میں تقریر کیوں کی؟ اس نے قومی زبان اردو میں تقریر کیوں نہیں کی؟ میرے پیارے فیس بکی ناقدین و مشاہیران واٹس ایپ آپ کے اس بچگانہ سوال کا سیدھا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہم غلام ابن غلام ہیں اگر ہم انگریزی میں تقریر نہیں کریں گے تو ہماری قابلیت کا پتہ کیسے چلے گا چین کا صدر اور وزیر اعظم جب بھی پاکستان کا دورہ کرتا ہے تو وہ انگریزی کی بجائے اپنی مادری زبان چینی میں بات کرتا ہے اور ہمارا وزیر اعظم پرچی میں دیکھ کر انگریزی پڑھ کر امریکی صدر بارک اوباما کو پائیے اور دال کھانے کی دعوت انگریزی میں دیتا ہے
ہم انگریزوں سے تو آزادی حاصل کی ہے لیکن ہم ذہنی طور اب بھی ان کے غلام ہیں اس لیے ان کی زبان کو ہم نے اپنی ترقی اور خوشحالی کا سبب سمجھ بیٹھے ہیں، یہ کھلا تضاد ہے۔ آ ج کا یہ کالم مندرجہ بالا ان اعتراضات اور تبصروں کا تجزیہ کرنے کے لیے لکھا گیا ہے جو حالیہ دنوں میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے چین کے دورے کے دوران ان کی تقریر کے حوالے سے سامنے آئے ہیں۔ یہ اعتراضات بنیادی طور پر دو پہلوؤں پر مبنی ہیں: ایک، وزیر اعلیٰ کا انگریزی میں اٹک اٹک کر تقریر کرنا، اور دوسرا، پرچی دیکھ کر تقریر کرنے کا انداز جو کہ فیس بکی ناقدین کو پسند نہ آیا۔
انگریزی میں تقریر کران غلامی کی ذہنیت بلکہ سفارتی ضرورت بھی ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انگریزی میں تقریر کرنا بعض حلقوں کے نزدیک غلامی کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جبکہ یہ بات نظر انداز کی جاتی ہے کہ سفارتی ملاقاتوں میں زبان کا انتخاب اکثر عملی اور سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔ چین کی قیادت اپنی زبان چینی میں بات کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی زبان اور ثقافت کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن پاکستان کے حکمران طبقے میں یہ روایت آزادی کے پچھتر سال گزرنے کے بعد بھی نہیں پائی جاتی۔
یہ رویہ دراصل تاریخی غلامی کے اثرات اور مقامی زبانوں کی ترقی میں عدم دلچسپی کا نتیجہ ہے۔ انگریزی کو قابلیت کی علامت سمجھنا اور اپنی زبان کو پس پشت ڈالنا قومی خودداری کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس پر اعتراض بجا ہے کہ جب چین کے حکمران اپنی زبان میں بات کرتے ہیں تو پاکستانی قیادت کو بھی اردو یا کم از کم کوئی مقامی زبان استعمال کرنی چاہیے تھی۔
پرچی دیکھ کر تقریر کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن بعض میرے فیس بکی ناقدین اسے خود اعتمادی کا فقدان قرار دے رہے ہیں۔ پرچی دیکھ کر تقریر کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن اگر یہ عمل بار بار اور غیر فطری انداز میں ہو تو سوالات ضرور اٹھتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا پرچی پر انحصار ان کی تقریر کی تیاری میں کمی یا خود اعتمادی کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔ قیادت کو ایسے مواقع پر اپنی مہارت اور اعتماد کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ ان کے اقدامات اور الفاظ دونوں مضبوط تاثر قائم کریں۔
اس دورے کے مثبت پہلو بھی ہیں ۔ان اعتراضات کے باوجود وزیر اعلیٰ پنجاب کے چین کے دورے کے نتائج کو نظر انداز کرنا غیر منصفانہ ہوگا۔ یہ دورہ ملک کی ترقی، سرمایہ کاری، اور پاک چین تعلقات کو مضبوط کرنے کے حوالے سے اہم ثابت ہوا۔
14 ارب روپے کے گوبی فنڈ کا قیام ایک بڑا قدم ہے جو پنجاب کو ڈیجیٹل معیشت کی طرف لے جانے میں مدد دے گا۔
زراعت، صحت، گرین انرجی، اور ٹیکنالوجی جیسے اہم شعبوں میں معاہدے اور مفاہمت نامے طے پائے۔
چینی ماہرین اور کارکنوں کی حفاظت کے حوالے سے چینی قیادت کی تشویش بالکل جائز ہے۔ پاکستان کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا رشتہ مزید مضبوط ہو۔
یہ بات واضح ہے کہ ہماری قیادت ایک طرف ترقی اور خوشحالی کے منصوبے لانے کی کوشش کرتی ہے لیکن دوسری طرف قومی زبان اور خودداری جیسے بنیادی معاملات پر غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرتی ہے۔ انگریزی میں تقریر اور پرچی پر انحصار اس بات کی علامت ہے کہ ہم اب بھی اپنی شناخت کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم اب بھی غلام ابن غلام ہیں۔ اس کے برعکس چین کی قیادت جب پاکستان آتی ہے تو وہ اپنی زبان میں تقریر کرتی ہے اور ثقافت کے حوالے سے مکمل خودمختار اور پرعزم ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے دورہ چین کے نتائج قابل ستائش ہیں لیکن ان کے اندازِ تقریر اور زبان کے انتخاب پر ہونے والی تنقید بھی درست ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری قیادت اپنی زبان اور ثقافت کو عالمی سطح پر پیش کرنے کی صلاحیت پیدا کرے اور اپنی خود اعتمادی کو مضبوط کرے۔ یہ نہ صرف قومی وقار کو بلند کرے گا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی مثبت تصویر پیش کرنے میں بھی مددگار ہوگا۔