پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کی بنیاد ان اصولوں پر رکھی گئی ہے جو ہماری تہذیب اور ثقافت کا حصہ ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت ہمارے رہنماؤں نے واضح کیا تھا کہ یہ ریاست ان روایات اور اقدار کی حفاظت کرے گی جو برصغیر کے مسلمانوں کی شناخت ہیں۔ لیکن آج کے دور میں ہماری قیادت نہ صرف ان اصولوں سے انحراف کرتی نظر آتی ہے بلکہ عوام کے لیے بھی غلط مثال قائم کر رہی ہے۔
حالیہ دنوں مریم نواز شریف کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں وہ قطر کے وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی سے ہاتھ ملاتی نظر آئیں۔ یہ ویڈیو سیاسی، سماجی، اور عوامی حلقوں میں بحث و مباحثے کا موضوع بن گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمل ہماری ثقافت اور قومی روایات کے مطابق ہے؟
پاکستانی ثقافت میں ہمیشہ سے خواتین کے لیے مخصوص روایات رہی ہیں جو ان کی عزت و وقار کو بڑھاتی ہیں۔ ہمارے معاشرتی اصولوں میں مرد و عورت کے تعلقات کے لیے ایک واضح حد مقرر ہے۔ عوامی شخصیات، خاص طور پر خواتین رہنما، ان اصولوں کو مزید اجاگر کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ مریم نواز شریف جیسے رہنما، جو لاکھوں لوگوں کے لیے مثال ہیں، کو اپنی ثقافت اور قومی اقدار کا خاص خیال رکھنا چاہیے تھا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں خواتین قیادت نے ہمیشہ اپنی شائستگی اور تہذیب سے مثال قائم کی ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی زندگی میں سادگی اور اصول پسندی کے ذریعے لوگوں کے دل جیتے۔ اسی طرح محترمہ بینظیر بھٹو، جو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں، بین الاقوامی سطح پر اپنی شاندار شخصیت اور رویے سے پاکستانی اقدار کی نمائندگی کرتی رہیں۔
ان کا لباس، ان کا انداز، اور ان کا رویہ ہمیشہ قومی تشخص کا آئینہ دار تھا۔
مریم نواز کا یہ عمل ان روایات سے دوری کی علامت ہے جو ہماری قیادت کے وقار کو مجروح کرتا ہے۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ سفارتی آداب کا تقاضا تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سفارتی آداب ہماری ثقافت اور قومی اصولوں سے زیادہ اہم ہیں؟ بینظیر بھٹو نے بھی کئی عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں لیکن کبھی ایسی مثال قائم نہیں کی جو پاکستانی روایات کے منافی ہو۔
شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی قطر کے اعلیٰ عہدے پر فائز ایک اہم شخصیت ہیں اور وہ بھی اپنی ثقافت کے حوالے سے حساس ہوں گے۔ اگر مریم نواز اپنی قومی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہاتھ ملانے سے گریز کرتیں تو یہ عمل زیادہ وقار کا حامل ہوتا اور ہماری روایات کو مزید مضبوطی فراہم کرتا۔
پاکستان کی عوامی شخصیات کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کا ہر عمل قوم کے لیے ایک مثال بنتا ہے۔ ان کے رویے نوجوان نسل پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں، جو پہلے ہی بیرونی ثقافتوں کے اثرات کا شکار ہیں۔ مریم نواز کا یہ عمل نہ صرف غیر ضروری تھا بلکہ قومی اقدار کے منافی بھی تھا۔ہمیں اس وقت ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو قومی تشخص کی حفاظت کرے اور دنیا کے سامنے پاکستان کی روایات کو اجاگر کرے۔
مریم نواز کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ ان کا عمل لاکھوں لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے۔ قومی تشخص اور ثقافتی اقدار کا تحفظ ہی وہ بنیاد ہے جس پر ہماری ریاست کی اصل پہچان قائم ہے۔اگر ہماری قیادت اپنی روایات کا تحفظ نہیں کرے گی تو عوام سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ
وہ ان اصولوں پر عمل کریں گے؟ ہمیں اپنی اقدار پر فخر ہونا چاہیے اور اپنی قیادت سے یہ امید رکھنی چاہیے کہ وہ قومی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے دنیا کے سامنے پاکستان کا مثبت چہرہ پیش کریں۔