
آج جس شخصیت کا تذکرہ کرنے لگا ہوں، وہ شخصیت جوانوں، بزرگوں اور بچوں کے لیے رول ماڈل ہیں،وہ شخصیت مرزا محمد یعقوب ہیں، مرزا محمد یعقوب 1952 تحصیل کہوٹہ موجودہ تحصیل کلر سیداں کے معروف گاؤں نوتھیہ میں مرزا محمد افسر کے گھر پیدا ہوئے،انھوں نے گورنمنٹ ہائی سکول ساگری سے 1970 کو سائنس مضامیں کے ساتھ فرسٹ ڈویژن میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اس کے بعد اصغر مال کالج سے 1972 ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا، سکول کے زمانے میں 1969 مانکیالہ اورساگری میں دیوار پر چاکنگ پڑھ کر جماعت اسلامی سے متعارف ہوئے، 1970 کے الیکشن میں مشکل حالات اور کم عمری کے باوجوداپنے خاندان کے ووٹ جماعت اسلامی کے امیدوار کے حق میں پول کروائے،1973میں انہوں نے دعوتی زندگی کا آغاز مسجد کا مقام اور ابادکاری کے موضوع پر اسلامی تعلیمات کو عام کرنے سے کیا
گاؤں میں ہر برادری پر مشتمل مسجد کمیٹی ان کی کوششوں سے قائم ہوئی،جس کی کوششوں سے مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی,1974 میں انھوں نے بینک کی سروس اختیار کی،اس کے پعد ایک سادہ سی تقریب میں ان کی شادی انجام پائی,ملازمت کے ساتھ ساتھ وہ گاؤں اور علاقے کے مسائل کے لئے متحرک رہتے،مختلف محکموں میں درخواستیں بھیجتے، اخبارات اور رسائل میں لکھتے،افسران بالا سے ملاقاتیں کرتے،مری کہوٹہ دیہات کے مسائل اور نومنتخب بلدیاتی ارکان کی ذمہ داریاں متعلقہ حلقوں میں ان کی تحریریں خاصی مقبول ہوئی ہیں،انھوں نے 1977 کی نظام مصطفی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، 1985,1988,1990,1993اور 2002 کے جنرل الیکشن میں انھوں نے جماعت اسلامی کے امیدواران کی بھر پور مہم چلائی1998 واجپائی کے دورہ لاہور کے دوران احتجاج میں شریک ہوئے اور گرفتار ہو کر پابند سلاسل ہوئے،2001 کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی آبائی یوسی غزن أباد سے چوہدری عبدالقیوم کے ساتھ نائب ناظم کا الیکشن لڑا،تیں پینلز میں مقابلہ تھا
انھوں اپنا پولنگ اسٹیشن بھاری اکثریت سے ون کیا، انھوں نے ایم ایم اے کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ایم این اے کے ترقیاتی اسکیموں کی نگرانی کی،انھوں اپنی وارڈ ڈھوک چراغ دین میں ریکارڈ ترقیاتی منصوبے مکمل کروائے یہ ہی وجہ تھی 2015 کے کینٹ بورڈ کے الیکشن میں ان کے بھتیجے اور ہمارے بھائی مرزا خالد محمود وارڈ ٹو سے 250 کی لیڈ سے کونسلر منتخب ہوئے پھر 2021 کے مرزا خالد محمود 1800ووٹوں کی لیڈ سے کونسلر منتخب ہونے اور ایک سال کے لئے وائس پریزیڈنٹ رہے اور ساتھ والے وارڈ سے یاسر قریشی بھی کونسلر منتخب ہو گئے اس سے پہلے 2013 کے جنرل الیکشن میں انھوں نے اپنی آبائی یوسی غزن آباد سے میرے الیکشن این اے 52 کی بھر پور مہم چلائی
ہر مہم میں وہ آگے ہوتے ہیں،بے شمار لوگوں کو جماعت اسلامی کی مرکزی تربیت گاہ میں لیکر گئے،ان کے پاس شعبہ تربیت رہا،انھوں نے پندرہ روزہ کلاسوں کا اہتمام کیا،ان کے پاس زون کا شعبہ نشرو اشاعت رہا۔زون کا الخدمت فاؤنڈیشن کا اکاؤنٹ بھی UPDate کرتے رہے بینک کی سروس مجبورا کی جوں ہی موقع ملا 1997 میں سروس کو خیر ٓاباد کہ دیا۔ مزید دو سال سروس کرتے تو Heavy کمیوٹ اور بھاری پنشن کے حقدار ہوتے،ان کی کوشش تھی جونہی متبادل رزق کا بندوبست ہوتا ہے وہ نوکری چھوڑ دیں گے، ان کی سوچ ہے کہ اتنی رقم ہو کہ چھوٹا موٹا کاروبار شروع کیا جاسکے۔
جس سے کنبہ کی کفالت کی جاسکے وہ آج بھی کینٹ کے ایک پسماندہ علاقے میں ایک چھوٹے گھر میں رہتے ہیں،ان کی ترجیح اول اللہ کادین ہے، ان کو جماعت اسلامی کی طرف سے جو ذمہ داری ملی انھوں نے احسن طریقے سے ذمہ داریاں ادا کیں، ایک طرف وہ رفائی کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو قران وسنت سے جوڑنے کے لیے متحرک رہتے ہیں،ان کی زبردست خواہش ہے کہ جماعت اسلامی ایک پودے سے تنا آور درخت میں تبدیل ہو تاکہ صالح اور باصلاحیت قیادت کے ذریعے انصاف خوشحالی اور مکمل اسلامی نظام کا خواب پورا ہو سکے
یہی بندگی رب کا تقاضا بھی ہے اور جنت کے حصول کا ذریعہ بھی ہے، یہ ہی وجہ ہے وہ اس عمر میں بھی متحرک رہتے ہیں بقول سید عذیر حامد صاحب کے وہ مولانا قاضی سرور رحمہ اللہ کے بعد راولپنڈی میں وہ دوسری شخصیت ہیں جو سید مودودی رحمہ اللہ کی اصطلاح میں مرجع خلائق ہیں،اللہ ان کا سایہ تادیر قائم رکھے اور مرزا خالد محمود ممبر کینٹ بورڈ کو ان کا سچا جانشین بنائے ان کی ساری اولاد کو ان کے راستے پر چلائے آمین،ان کے پانچ بیٹے ہیں،ان کے تین بھائی تھے سب سے بڑے مرزا بشیر ہیں، دوسرے نمبر پر مرزا یاسین تھے جو مرزا خالد محمود کے والد وہ فوت ہو گئے ہیں، چھوٹے مرزا مقبول ہیں،اللہ ان کے خاندان کو امن و سکون کی زندگی عطا فرمائے آمین۔