مرد مجاہد سینیٹر مشتاق احمد خان

شجر ہائے سایہ دار‘ یعنی امام العصر‘ حضرت مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمت اللہ علیہ کے لگائے ہوئے بابرکت پودے نے، اللہ کے حکم سے بے شمار مزیدار، خوبصورت اور خوب سیرت پھل اور پھول پیدا کیے۔ جن میں میاں طفیل محمد مرحوم، قاضی حسین احمد مرحوم، سید منور حسن اور جماعت کے کتنے ہی وہ مرحومین جنہیں پروردگار عالمین کے سوا کوئی نہیں جانتا اپنی اپنی خوشبو بکھیر کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے، انہی گمنام لوگوں میں سے راقم الحروف کے والد محترم جناب حافظ عبدالغفور رحمت اللہ علیہ بھی شامل ہیں، اللہ پاک اپنے ان تمام صالحین مرحومین کو اعلی علیین میں قرب خاص نصیب فرمائے آمین۔ اور الحمدللہ کتنے ہی اب بھی وہ پاکیزہ نفوس ہیں جو اپنے اپنے خوشبو سے اج کے دورکے مسموم نفوس (زہریلے انسانی شکل کے سانپوں) کی اکثریت میں رہتے ہوئے اپنے پاکیزہ عمل اور ارادے سے اس امت کے مردہ جسم و جان میں روح کو بیدار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

جیسے کہ جناب سینیٹر سراج الحق، جناب لیاقت بلوچ، جناب حافظ ادریس ، جناب شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمالک‘ محترم جناب پروفیسر خورشید احمد‘ جناب سینیٹر مشتاق احمد خان وغیرہ شامل ہیں اللہ پاک ان تمام احباب کی کوششوں محنتوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آج کے اس دور میں جسکی مسموم فضا میں ہم سانس لے رہے ہیں اور جہاں ہر طرف مفادات و انتشار نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور ہر طرف نفسا نفسی اور مارا ماری کا عالم ہے۔ ایک طرف تو امت مسلمہ کشمیر و فلسطین میں کسی محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کی منتظر ہے اور امت مسلمہ کا جسم لہو لہو ہے اور دوسری طرف امت مسلمہ کے سروں پر مسلط وہ حکمران ہیں، جو بظاہر تو مسلمان ہیں لیکن کسی کا قبلہ واشنگٹن کی طرف ہے اور کسی کا قبلہ بیجنگ کی طرف ہے اور کسی کا قبلہ برطانیہ و یورپ اور فرانس کی طرف ہے۔ ایسے حالات کے اندر جب کہیں سے ہوا کے پاکیزہ، ہلکے ہلکے جھونکے اتے ہیں، تو دل و دماغ سے کچھ غبار دھل سا جاتا ہے،

اور قلب و جگر میں نئی امنگیں، آرزوئیں اور امید کی کرنیں روشن ہو جاتی ہیں۔ انہیں ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکوں میں سے جب کردار کے غازی اللہ کے نیک اور پاکیزہ بندے جب میدان عمل میں اترتے ہیں، تو ان کی چال سے وہ بانکپن نظر آتا ہے، جو اس امت کو اپنے اسلاف کی ہلکی سی جھلک دکھا جاتا ہے اس امت مسلمہ کی مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی حافظہا اللہ تعالی کو، جن کو امت مسلمہ بالعموم اور قوم پاکستان بالخصوص بھول جاتی ہے تو اس حال میں امت کی بے کس بیٹی کے کیس میں ایسی جان ڈالتے ہیں اور اس شدت سے اس بات کو ساری دنیا میں اٹھاتے ہیں اور درد دل رکھنے والے مسلمانوں کی اواز ان کانوں تک پہنچاتے ہیں جن کے کان بہرے ہو چکے ہیں ایک ایسے وقت میں کہ جب ہم سب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھول چکے تھے، ایسے میں پاکستان سے درد دل رکھنے والی ایک ایسی شخصیت اٹھتی ہے، جس کا خمیر اسلام کی اس نمائندہ جماعت سے اٹھا ہے،

کہ جس جماعت کے بانی کو دنیا سید مودودی کے نام سے جانتی ہے۔ بندہ عاجز کی مراد ہے محترم سینٹر مشتاق احمد خان کہ جنہیں راقم الحروف نے ”شیر پاکستان“ کے الفاظ سے موسوم کیا ہے۔ اور شیر پاکستان، محترم مشتاق احمد خان صاحب نے، عام سیاست دانوں کی طرح صرف زبانی جمع خرچ نہیں کیا بلکہ اپنی بہن اور بیٹی کے سر پر دست شفقت رکھنے کے لیے امریکہ میں جا کر اس مظلوم و بے سہارا کے نہ صرف انسو پونچھے، بلکہ جیل کی ان سلاخوں کو جا کے کھلوایا کہ جن کو ہمارے بے ضمیر حکمران یہ سوچتے تھے کہ وہ آہنی دروازے کبھی نہیں کھل سکتے۔ بقول علامہ اقبال کے ؎
غلامی میں نہ کام اتی ہیں زنجیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اور وہاں جا کر صرف اپنی ہی ترجمانی نہیں کی بلکہ امت مسلمہ کے تمام درد دل رکھنے والے مسلمانوں کی طرف سے بھی انکے احساسات کی ترجمانی فرمائی۔ اللہ پاک انہیں ہماری طرف سے اور تمام امت کی طرف سے بہترین جزائے خیر عطا فرمائے۔ یہ کام کر کے انہوں نے صرف اپنے دردمندانہ احساسات ترجمانی ہی نہیں کی بلکہ دوسری طرف، ہمارے پاکستانی حکمرانوں کی بزدلی،کم ہمتی، نا مردی، کافروں کے اگے کاسہ لیسی اور ان کی نااہلی اہلیان پاکستان پر واضح کی۔

ابھی قوم کو کوئی امید لگی ہی تھی اسی اثنا میں اس دنیا و کائنات کی دھتکاری ہوئی قوم، اللہ کے غضب کی شکار قوم، ہٹلر کے ہاتھوں عذاب کا مزہ چکی ہوئی بدبخت ترین قوم،انبیاء و رسولوں کی قاتل قوم، اپنی دسیسہ کاریوں سے دنیا کو تنگ کرنے والی قوم، قوم یہود، قبلہ اول کے باسیوں پر آتش و آہن کی بارش برسا کر سارے غزہ کو کھنڈر بنا دیتی ہے اور چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں عورتوں اور مردوں کو خون میں نہلا دیتی ہے۔ وہ قوم جو کبھی فرعون کے غیض و غضب کا شکار تھی آج ان میناروں کو بمباری کر کے گرا رہی ہے جن میناروں سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی تھی وہ منبر و محراب اجاڑ رہی ہے جہاں سے رب کریم کی کبریائی کا اعلان کیا جاتا تھا واللہ العظیم یہ الفاظ لکھتے ہوئے روح زخمی ہے۔ قلم بیان کرنے سے عاجز ہے۔ حروف ساتھ نہیں دے رہے۔ دل و جگر سے چیخیں اور آہیں نکل رہی ہیں اور اپنے پروردگار کی رحمت کو جوش میں لانے کے لیے خالی ہاتھ اور خالی دامن اس کے آگے پھیلائے کھڑے ہیں۔ مظلوموں کی اہیں سسکیاں اس کے عرش کو ہلانے کی کوشش کر رہی ہیں

اور یقین واثق ہے کہ اس کی جناب سے آنسووں آہوں سسکیوں اور فریادوں کا جواب بس آیا ہی چاہتا ہے بقول قران پاک متیٰ نصر اللہ۔ کب ائے گی اللہ کی مدد؟ الا ان نصر اللہ قریب۔ آگاہ رہو اللہ کی مدد بہت ہی قریب ہے۔ بات کہاں سے کہاں جا نکلی؟ اس طرح کے حالات اور آتش و آہن کی بارش میں بکھرے لاشوں کی تصویروں میں عوام الناس کہ جن کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں سوائے اپنے مظلوم مسلمانوں کیلئے دعاؤں اور التجاؤں کے اور دوسری طرف بے حس، بے ضمیر، بے حمیت، بے غیرت، بے شرم، عقل و دانش سے عاری،موت کے خوف کا شکار،بزدل، کم ہمت اپنے اقتدار کے پجاری یہ کافروں کے غلام اور بھکاری حکمرانوں کاٹولہ ہے جو اپنے مفاد کی خاطر ہر حد سے گزرنے والا آج خاموش تماشائیوں کی طرح امت کی بہو بیٹیوں کو لٹتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔

لیکن ”وھن ” کا شکار، دنیا کی زیب و زینت کا پجاری اور موت کا خوف رکھنے والا ٹولہ جو دو ارب مسلمانوں کے سروں پر مسلط ہے یہ وہ ظالم اور سرکش حکمران ہیں کہ اپنے مجبور و مقہور عوام کی طرف سے ہونے والے ادنی سے ادنی احتجاج پر اپنی ساری حکومتی مشینری کو حرکت میں لے آتے ہیں اور بعض اوقات اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے لاشوں کے انبار لگا دیتے ہیں، لیکن اج امت کو لوٹتے اور کٹتے ہوئے دیکھ کر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ایسے میں شیر پاکستان، محترم سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب، امت کا حقیقی درد رکھنے والے اور امت کی صحیح ترجمانی کرنے والے فلسطین کے بارڈر تک جا پہنچتے ہیں کہ کسی طریقے سے انہیں راستہ مل جائے اور اپنے مظلوم مسلمانوں کے دکھ درد میں شریک ہو جائیں لیکن اسی ظالم حکمران ٹولے کے ہاتھوں لگائی ہوئی، کھینچی ہوئی لکیروں کی وجہ سے جس نے امت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے بارڈر نہ کراس کر سکے اور ہر قسم کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مفادات کو قربان کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ان مظلوم مسلمانوں کی اشک شوئی کے لیے وہاں پر جا پہنچتے ہیں اور امت کا درد محسوس کرنیوالے پاکستانی عوام کی طرف سے بھی میسج دیتے ہیں

کہ اے مظلوم مسلمانوں ہم تمہارے پاس پہنچ تو نہیں سکتے ان لکیروں کی وجہ سے، لیکن ہماری دعائیں اور ہمارے دل تمہارے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ایسے ہی تھے ہمارے اسلاف جو ہر قسم کے خوف و خطر کو بالائے طاق رکھ کے بلا خطر آگ نمرود میں کود پڑتے تھے بقول علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ، بے خطر کود پڑا اتش نمرود میں عشق، عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی۔ یہ تھے بندہ عاجز کے وہ چند الفاظ، ٹوٹے پھوٹے الفاظ، جو شاید اس کے احساسات کی صحیح ترجمانی بھی نہیں کر سکے، بقول شاعر کہ ؎
دل سے جو آہ نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں مگر طاقت پرواز رکھتی ہے
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان چند الفاظ کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے اور ان الفاظ کو شرف قبولیت عطا فرما کر امت کے لیے نافع بنائے اور ہمیں ہر طرح کے شیطان کے شر اس کے حملوں وسوسوں اور چالوں سے محفوظ فرمائے آمین ثم آمین۔
خادم و خطیب جامعہ مسجد ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ، روات اسلام آباد۔

اپنا تبصرہ بھیجیں