مذہبی جماعتوں کے ساتھ ناانصافی

سلطنت عثمانیہ جو مسلمانوں کے عظمت و جلالت رفعت و بلندی کا ایک نشان تھی اس کے آخری دور میں سائنس وٹیکنالوجی کے دور کا آغاز ہو چکا تھا اور یورپ بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رھا تھا لیکن سلطنت عثمانیہ کے خلفاء اپنے آباء واجداد کے برعکس خواب غفلت میں سو رہے تھے وہ سائنسی علوم سے بے بہرہ ہو کر خواب خرگوش میں سو رہے تھے کچھ علماء جو وقت کے تقاضوں سے آگاہ تھے انہوں نے جگانے کی بھر پور کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے جن میں سے ایک نام بدر الزمان سعید نورسی کا تھا ترکی کے موجودہ صدر ان ہی کے معتقد ہیں یہ تو تھی مسلمانوں کی مرکزی حکومت کی حالت ادھر بر صغیر میں مغلیہ دور حکومت میں بھی یہی حالات و واقعات تھے انگریزوں کے دور حکومت میں علوم عصریہ کے لیے سکول و کالج قائم کیے گئے تو مسلمان علماء نے حصول علوم عصریہ کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کر دیا کہ اس سے ہمارے بچوں کے عقائد ونظریات اخلاق و کردار بدل جائیں گے وہ اسلامی تہذیب و تمدن معاشرت اخلاقیات سے بے بہرہ ہو جائیں گے وہ ایسے ہی ہو جائیں گے جیسے اس وقت یورپ والے ہیں دین سے مکمل بے زارگی یہ اپنے انہیں مدارس کے نظام پر قائم رہے نظام یوں ہی چلتا رہا بعد ازاں کچھ درد مند ایسے آئے جو مسلمانوں کو غلامی سے نجات دلانا چاہتے تھے انہوں نے اس کا علاج یہ ڈھونڈا کہ بچوں کو علوم عصریہ کے زیور سے آراستہ کیا جائے اس کا فائدہ یہ ہوا کہ انگریز کو اس کی زبان و قانون کے مطابق جواب ملنا شروع ہو گیا آخر کار بر صغیر کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد آزادی کی نعمت سے ہم کنار ہو گئی لیکن اس کا ایک بہت بڑا نقصان بھی ہوا وہ یہ کہ مسلمانوں میں دو گرہ پیدا ہو گئے ایک دین دار لوگوں کا جو صرف دینی تعلیم سے روشناس تھے جن کو مولوی ملا کہہ کر کہا جاتا ہے اور دوسرا طبقہ جو صرف علوم عصریہ سے واقف تھا دونوں کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی گئی علوم دینیہ والے علوم عصریہ سے بے بہرے اور علوم عصریہ سے روشناس علوم دینیہ سے ناواقف اس خلیج نے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا علماء مدارس اور محراب و منبر تک محدود ہو کر رہ گئے جب کہ علوم دینیہ سے لاعلم لوگ چاہے وہ ان پڑھ ہوں یا علوم عصریہ سے روشناس وہ تخت و تاج کے مالک و مختار بن گئے ملک نظریہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا لیکن اسلام کو جاننے والوں اسلام کا نام لینے والوں اسلام کی ترویج و اشاعت کی بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھانے والوں اسلام کے خدمت گاروں کو یہ کہہ کر دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا کہ یہ تو دقیانوسی خیالات کے مالک ہیں یہ آج سے سینکڑوں سال پہلے کی باتیں کرتے ہیں یہ آج کے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں یہ آج کے دور کا مقابلہ نہیں کرسکتے معاشرے میں محراب و منبر تو ان کے ذمہ کیا جاتا ہے لیکن ان کو وہ عزت و وقار نہیں ملتا جس کے وہ حقدار ہیں اکثر مسجد کمیٹیوں کے سربراہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو بات کرنے کی تک تمیز نہیں ہوتی اس کے سامنے علامہ صاحب ہاتھ باندھے کھڑے ھوتے ہیں کسی اچھی تقریب میں تو ان کو بلایا تک نہیں جاتا یہ سمجھ کر کہ وہ اس کے قابل نہیں ہیں اس کے باوجود یہ لوگ اس چیز کو برا محسوس نہیں کرتے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا تلاش کرتے رہتے ہیں ہمہ وقت قوم و ملت کی بھلائی تلاش کرتے رہتے ہیں یہی لوگ پوری قوم کے ایمان کے محافظ ہیں ان کے دین کے محافظ ہیں اور ان کا دین و ایمان اور روایات ان کی اگلی نسلوں تک پہنچا رہے ہیں ان علماء کی قدر جاننی ہو تو روس اور اس سے آزاد ریاستوں کے باشندوں سے جانیے جن کو تبلیغ کی اجازت نہیں تھی انہوں نے
اپنے دین و ایمان کی حفاظت کیسے کی ہے یہی نہیں بلکہ پاکستان کے تقریباً چالیس لاکھ نوجوانوں کو فی سبیل اللہ دین مبین کی تعلیم سے منور کر رہے ہیں اور اس قوم و ملت کے آنے والی نسلوں کے دین کو تحفظ فراہم کرنے والے لوگ پیدا کر رہے ہیں اور ملک کا بوجھ کم کر رہے ہیں یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ جب بھی قومی سطح پر کوئی مشکل وقت آیا تو یہی لوگ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے کہیں ان کی کمزوری سے پوری قوم کا ایمان ضائع نہ ہو جائے 1953 میں قادیانیت نے سر اٹھایا تو ان لوگوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے صرف اور صرف لوگوں کے ایمان کو محفوظ کرنے کے لیے پھر 1973 میں دوبارہ تحریک شروع کی اور ان کے تیسرے خلیفہ مرزا ناصر کو پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر پورے ایوان کے سامنے شکست فاش دے کر ان کو غیرمسلم قرار دلوا کر دم لیا بلکہ جب بھی قومی سانحات وقوع پذیر ہوئے تو یہ لوگ ملک وملت کی خدمت کے لیے سب سے آگے کھڑے پائے گئے پاکستان میں بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں جن کو آپ لوگ بڑی ہی چاہت کے ساتھ ووٹ دیتے ہیں جن کے لاکھوں ووٹرز ہیں اور وہ جماعتیں عوامی خدمت گار ہونے کی دعویدار بھی ہیں اگر وہ عوامی خدمت کے دعوے میں اتنی ہی سچی ہیں تو کسی ایک بھی سیاسی جماعت کا ویلفیئر کا ونگ کیوں نہیں ہے باقی جماعت کے فائدے کے لیے وکلاء،ڈاکٹرز،کسان لیبر، علماء و مشائخ، کلچر ہر قسم کا ونگ موجود ہے لیکن نہیں ہے تو عوام الناس کے فائدے والا ونگ تاکہ کہیں ان کی وجہ سے غریب عوام کا بھلا نہ ہو جائے لیکن جن پر عوام الناس اعتماد نہیں کرتے میری مراد دینی جماعتیں اور دینی لوگ جب بھی قوم پر مشکل گھڑی آئی وہ سب سے آگے ہوتے ییں تقریباً ہر مذہبی سیاسی جماعت کا دوسرے ونگ کی طرح ویلفیئر کا ونگ موجود ہے جماعت اسلامی کو دیکھ لیں عرصہ دراز سے سیاست میں حصہ لے رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ الخدمت فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے دوکھی انسانیت کی خدمت میں ہر وقت سر گرم عمل رہتی ہے اسی طرح پاکستان عوامی تحریک کو دیکھ لیں جہاں پر ان کی جماعت سیاست کے اندر تھوڑا یا زیادہ حصہ لیتی ہے لیکن دکھی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے ہر وقت مصروف عمل رہتی ہے جماعت الدعوہ کو دیکھ لیں ان کا ملی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جبکہ فلاح انسانیت کے نام سے مصروف عمل ہے دعوت اسلامی بھی اس جہاد میں شانہ بشانہ کام کر رہی ہے ابھی ٹرانسجینڈر بل آیا تو اس میں عوام کی تمام محبوب جماعتیں ملوث ہیں اگر اس کے خلاف بولنے کی توفیق ہوئی تو جماعت اسلامی کے سنیٹر کو صرف اسی بل کو دیکھ لیں یہ آپ کو کس سمت لے کر جا رہے ہیں اب تو مذہبی جماعتوں میں سیکولر جماعتوں سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں لیکن ہم اچھے دین دار لوگوں کو پسند نہیں کرتے جب دین ودنیا کی بھلائی کے تمام کام مذہبی جماعتیں اور ان کے کارکن کریں اور عزت و احترام اور ووٹ دوسری جماعتیں سمیٹیں تو کیا یہ علماء اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ نا انصافی نہیں

ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں