محمد شہزاد نقشبندی/چند دن قبل ایک تاریخی ڈرامہ سیریل عثمان دیکھ رہا تھا امت مسلمہ کے محسن اور عظیم مرد مجاہد ارطغرل غازی کے بیٹے عثمان بن ارطغرل بن سلیمان شاہ پر ترکی نے ایک شاندار ڈرامہ سیریل بنائی ہے یہ وہی عثمان ہے جو مسلمانوں کی عظمت‘جاہ وجلال‘عروج کی نشانی عظیم سلطنت عثمانیہ کا بانی ہے جو اسی کے نام سے موسوم ہے ابتدا میں سلطنت ایک چھوٹے سے علاقے میں قائم کی گئی بعد ازاں اتنی تیزی کے ساتھ اس اور اس کی اولاد نے فتوحات پر فتوحات حاصل کیں کہ اس کی وسعت تین براعظموں تک پھیل گئی اور پانچ صدیوں تک عثمان کی اولاد نے بلا شرکت غیرے اس پورے علاقے پر حکومت کی یہ سلطنت اتنی عظیم اور وسیع تھی اس کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ اس کے خاتمے کے وقت 47 ممالک معرض وجود میں آئے اس تاریخی ڈرامہ سے مسلم نوجوانوں کو اپنا عظیم اور باوقار ترقی یافتہ ماضی دیکھانے کی بہت ہی احسن کوشش کی گئی ہے شاید ان ہی نوجوانوں کے سینوں میں غیرت و حمیت پیدا ہو جائے اور وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت و بزرگی کی بحالی کی چنگاری لیے اٹھ کھڑے ہوں اور پھر یہ سوئی ہوئی قوم اپنے بھٹکے ہوئے راستے سے پلٹ کر صراط مستقیم پر گامزن ہو جائے اور پھر اوجے ثریا پر کمند ڈالنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہو جائے اس ڈرامے میں ایک ایسے سین کو بھی پردہ سکرین پر دکھایا گیا جو تاریخی روایات کے مطابق درست بھی ہے تاریخ میں آ تا ہے کہ عثمان کو دولت کی کوئی لالچ نہیں تھی اس کے پاس جو کچھ ہوتا وہ غراباء و مساکین میں تقسیم کر دیتا تھا دیکھایا گیا ہے کہ وہ ایک مہم سے کامیابی کے بعد قبیلے میں واپس آتا ہے اور مال غنیمت کی تقسیم کے بعد اپنے حصے کا مال غنیمت لے کر چپکے سے غائب ہو جاتا ہے اپنے حصے کا سارا مال بڑی راز داری کے ساتھ اس علاقے کے غریب اور پسماندہ مسکین لوگوں میں بنا سامنے آئے تقسیم کر دیتا ہے تا کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور وہ معاشرے میں عزت و آبرو کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں (معذرت کے ساتھ ہمارا تو آج حال یہ ہو چکا ہے کہ ہزار روپے کا سامان دینے کے بعد اس کی سوشل اور پرنٹ میڈیا پر اتنی تشہیر کی جاتی ہے کہ اس شخص کی اتنی رسوائی اس شئے کی محرومی میں نہیں ہوئی ہوتی جتنی اس کے حصول کے بعد وہ محسوس کرتاہے) اس کے علاوہ دیگر کئی حکمرانوں کے بھی بے شمار واقعات تاریخ کے اوراق میں پوشیدہ ہیں یہ دیکھنے کے بعد میں اس سوچ میں گم ہوگیا کہ ایک وہ حکمران تھے جن کی سوچ و فکر اوڑھنا بچھونا اپنے عوام کی فلاح و بہبود تھا وہ ہر وقت اسی سوچ میں مگن رہتے تھے کہ اپنے غریب اور نادار مسکین رعایا کے حالات کیسے بدل سکتے ہیں اسی غرض سے وہ اپنا ذاتی جائز و حلال رزق بھی غرباء اور مساکین میں تقسیم کر دیتے تھے ادھر ہمارے آج کے حکمران ہیں جن کا طریق ہی عجب ہے جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو آسمان سے تارے توڑ توڑ کر عوام کے قدموں میں نچھاور کرنے کے دعوے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں دکھ درد مصیبت میں سہارے کی باتیں حتیٰ کہ اکٹھے جینے مرنے کی قسمیں کھاتے ہیں علاج معالجے‘ روٹی‘کپڑا‘ مکان روزگار اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے وعدے کیے جاتے ہیں حاصل کلام یہ کہ دودھ اور شہد کی نہریں بھانے کے سپنے دکھائے جاتے ہیں لیکن جوں ہی حکومت قائم ہوئی ان کے دیدار کو آنکھیں ترس جاتی ہیں پھر وہ سب کچھ بھول کر اقتدار کے مزے لینا شروع کر دیتے ہیں بس ان کو ایک ہی فکر لاحق ہوتی ہے کہ اپنے اور اپنے خاندان کی خدمت کیسے کی جا سکتی ہے ان کے اثاثہ جات میں اضافہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے ان کی ملک دشمنی دیکھیے ان کے اپنے بزنس تو برق رفتاری کے ساتھ ترقی کر رہے ہیں اور سرکاری محکمے زوال پزیر اور خسارے میں حتیٰ کہ انہیں بند کیا جا رہا ہے سٹیل مل اور پی آئی اے کا حال آپ کے سامنے ہے یہ سارے ان کے حیلے بھانے ہیں ملک لوٹنے کے انھوں نے ہر محکمے کو ہر ادارہ کو تباہی و برباد کردیا ہے اسی لئے آئے روز مختلف محکمہ جات کے ملازمین آپ کو سڑکوں پر سراپا احتجاج نظر آتے ہیں کہ ان کو جو مراعات دی جاتی ہیں اس سے ان کی فیملیز کا گزرو اوقات ممکن نہیں ہے اب حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ ملک کو چلانے کے لیے مزید قرض کا حصول بھی مشکل ہو چکا ہے دوست ممالک بھی ہاتھ کھینچ رہے ہیں سواے چائینہ کے اب تو اصل زر کا سود دینے کے لیے بھی قرض لینا پڑھتا ہے اس کے لیے آئی ایم ایف کی عوام دشمن کڑی سے کڑی شرائط باسروچشم قبول کر لی جاتی ہیں یہ حالات صرف اور صرف ان حکمرانوں کی وجہ سے ہیں کیونکہ یہ سب سوداگر ہیں آپ سب کا حسب و نسب دیکھ لیں اور سوداگر صرف اپنا نفع دیکھتا ہے اسے کسی اور کی سوچ وفکر نہیں ہوتی ہمارے ملک و ملت کی حالت تب تک بدل نہیں سکتی جب تک ہمیں عثمان جیسا بے لوث بے غرض غراباء و مساکین سے محبت کرنے والا نہ کہ گھن محسوس کرنے والا ملک و قوم کی سوچ و فکر رکھنے والا نہ کہ اپنے خاندان کی فکر کرنے والا مخلص حکمران نہیں ملتا نہ کہ سوداگر قوم سوداگروں اور مخلص لوگوں کی پہچان کریں تب ہی ہماری پریشانیاں ختم ہوں گی
256