محکمہ مال میں کرپشن کے قصے،غضب کہانیاں

قارئین کرام! پاکستان تحریک انصاف اس نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی کہ ہم کرپشن کا خاتمہ کریں گے اور یہ بھی الزام کہ سابقہ پارٹیوں نے بہت لوٹ مار کی اور کرپشن کو فروغ دیا، لیکن انکا یہ نعرہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے علاوہ کچھ نہ تھا، کرپشن حد سے بڑھی اور اب بھی یومیہ اربوں روپے کی کرپشن ہو رہی ہے لیکن چونکہ اپوزیشن کے پاس بیانیہ تگڑا نہیں تو وہ اپنے کیسز بھگت بھگت کر بیان بازی کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکے۔پی ٹی آئی کے ناراض رہنما علیم خان نے گزشتہ روز انکشاف کیا کہ 3 کروڑ لے کر پنجاب میں ڈی سی لگائے جاتے رہے، یہ انکشاف ان لوگوں کیلیے نیا ہو گا جنہوں نے اس بیان کو لے کر بیان بازی اور مخالفت برائے مخالفت کرنی ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ صرف پنجاب ہی نہیں پورے پاکستان میں افسران ایسے ہی لگائے جاتے ہیں، ذرائع سے تو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مبینہ طور پر دو کروڑ روپے یومیہ وزیراعلیٰ سندھ اپنے باس کے گھر یعنی بلاول ہاوس میں دیتے ہیں، وزیراعلیٰ اب کس سے اور کیسے لیتا ہے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں، اسی طرح سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے اے سی لگنے والا پڑھا لکھا نوجوان جب سیٹ پہ بیٹھتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ منتھلی لینی بھی ہے اور اوپر دینی بھی ہے، جس ڈی سی نے تین کروڑ سے پانچ کروڑ دے کر تعیناتی کرائی ہے اس نے وہ پیسے پورے بھی کرنے ہیں، تو اس ضمن میں وہ تمام ماتحت اے سی صاحبان کو آرڈر دیتا ہے کہ اتنی رقم منتھلی پہنچنی چاہیے باقی آپ اپنی تحصیل میں جو لوٹ مار ہو سکے وہ کریں اس پہ میرے پاس جب کوئی آئے گا تو سنبھال لوں گا اس طرح وہ ماتحت اے سی پھر تحصیلداروں، رجسٹری محرر، اراضی ریکارڈ سنٹر اور بلدیہ کے افسران کو بلا کر حکم جاری کرتا ہے کہ فلاں نے اتنے اور فلاں نے اتنے پیسے دینے ہیں، پھر تحصیلدار اپنے ماتحت پٹواریوں، گرداوروں اور عوام سے، رجسٹری محرر عوام سے، بلدیہ افسر ٹیکس اور ناجائز تجاوزات کے نام پر عوام سے مال بٹورتے ہیں، ٹھیکوں میں ٹھیکیداروں سے مال لیتے ہیں اور پھر خود بھی کھاتے ہیں اور افسران کو بھی خوش کرتے ہیں۔میں بھی یقین نہیں کرتا تھا کہ سی ایس ایس کرنے والا نوجوان جب اسسٹنٹ کمشنر لگتا ہے تو اسے گاڑی، گھر، تنخواہ، پروٹوکول دیا جاتا ہے تو اسے کیا ضرورت کرپشن کرنے کی؟ لیکن ایک اسسٹنٹ کمشنر کے ماتحت نے مجھے کلمہ پڑھ کر بتایا کہ یہ اتنے پیسے ڈیمانڈ کر کے لیتے ہیں اور ہمیں دینے پڑتے ہیں پھر ہم وہ پیسے عوام سے پورے کرتے ہیں۔کرپشن کی سادہ سی مثال یوں لے لیجیے کہ اراضی ریکارڈ سنٹر یا محکمہ مال کے ریکارڈ میں غلطی ہے تو اسے درست کرانے کیلیے آپکو پٹواری کے پاس جانا پڑتا ہے تو پٹواری فرد بدر بنانے کے 20 سے 50 ہزار روپے عام آدمی سے اینٹھ لیتا ہے، کیونکہ اس نے اپنی دیہاڑ بھی لگانی ہے، گرداور سے دستخط بھی کرانے ہیں اور تحصیلدار سے بھی منظوری لینی ہے تو اس کو فی دستخط پیسے دینے پڑتے ہیں، یوں یہ رقم عوام کی جیب سے نکل کر اقتدار میں بیٹھے وزیراعلیٰ تک گھومتی جاتی ہے اور پھر ہم کہتے ہیں کرپشن ختم نہیں ہوتی۔یہ اس دور اقتدار کی کہانیاں ہیں جس میں اقتدار میں بیٹھی پارٹی تحریک انصاف ہے، باقی سابقہ ادوار ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مثالیں چھوڑ دیں کہ انہوں نے کیا کیا انت مچائی ہو گی یہ محلات اور بینکوں میں ڈالر یونہی نہیں بن جاتے ان کیلیے مختلف ذرائع سے رقم کرپشن کر کے لینا پڑتی ہے۔ قارئین کرام! کرپشن اس ملک کا اتنا اہم مسئلہ نہیں جتنا اہم مسئلہ نظام کی خرابی ہے، پنجاب میں پولیس کو آزاد کرنے کا کہنے والوں نے خود پولیس کو غلام بنایا، کرپشن کے خاتمے کے دعویداروں نے کرپشن کو فروغ دیا، تبدیلی کی باتیں کرنے والوں نے عوام کو دھوکہ دیا، یہ سب تبھی ہوا جب نظام کرپٹ ہے، جس دن اس کرپٹ نظام کو درست کرنے کی جانب قدم اٹھایا گیا اس دن یہاں سے کرپشن سمیت تمام برائیوں کا خاتمہ ممکن ہو گا، ورنہ یہاں ضلعی و تحصیلی افسران پیسے دے کر ہی لگیں گے اور وہ عوام کا اسی طرح خون چوستے رہیں گے۔ اللہ ہمارے ملک کی خیر کرے اور اس کی حفاظت فرمائے۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں