محمد شفیق بھٹی کی تعلیمی خدمات

خالد محمود مرزا
میں مسلسل لکھ رہا ہوں زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں، زندگی مسلسل جدو جہد کا نام ہے، جس نے محنت کی، وہ منزل پر پہنچ جاتا ہے، جو سہاروں کی تلاش میں رہا، شارٹ کٹ کے چکر میں رہا، اس کا منزل تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے، یہ سبق کل بھی تھا آج کے نوجوان کے لئے بھی ہے کہ محنت کرو، سہاروں کو مت ڈھونڈو، صرف اللہ کے سہارے آگے بڑھو، محنت کرو، منفی ہتھکنڈوں سے بچو، تم یقیناً باعزت منزل پر پہنچ جاؤ گے، آج ایک ایسے فرد کی زندگی کے چند اوراق آپ کے سامنے پلٹنے لکھا ہوں جس کی زندگی مسلسل محنت کی عبارت ہے، اس فرد کا نام محمد شفیق بھٹی ہے،

محمد شفیق بھٹی 1966 میں محمد خان بھٹی کے گھر جھڑیں تحصیل گوجرخان میں میں پیدا ھوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری سکول سے حاصل کی،چھٹی جماعت میں گورنمنٹ ہائی سکول بھاٹہ میں داخلہ لیا وہاں سے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ان کے ایک بڑے بھائی رفیقِ بھٹی اور دو بہنیں ہیں۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، بڑے بھائی آیوان صدر اسلام آباد میں ملازمت کرتے تھے جبکہ بہنیں انگلینڈ میں مقیم تھیں، انھوں نے پانجویں اور آٹھویں امتحانات میں وظیفہ حاصل کیا تھا،دسویں کلاس کے طالب علم تھے کہ اچانک ان کے والد صاحب 1984 وفات پاگئے،میٹرک کا رزلٹ آیا تو بڑی بہن جو انگلینڈ میں مقیم تھیں اس نے مبارک باد کا خط لکھا اور چھوٹے بھائی محمد شفیق بھٹی کو کہا کہ والد صاحب کی خواہش تھی کہ آپ اگے پڑھیں میں آپ کو پڑھاؤں گی لیکن محمد شفیق بھٹی نے کہا کہ پیاری بہن میں والد صاحب کی وصیت ضرور پوری کروں گا لیکن آپ پر بوجھ نہیں بنوں گا،

بڑے بھائی جو ایوان صدراسلام آباد میں ملازمت کررہے تھے انہوں بھی تعلیم جاری رکھنے کا کہا لیکن محمد شفیق بھٹی نے کہا کہ مجھے آپ کی سرپرستی کی ضرورت ہے لیکن آپ پر بوجھ نہیں بنوں گا میں اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونا چاہتا ہوں اور مسلسل محنت کرکے باپ کے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنا چاہتا ہوں۔،جولائی 1984 میں ان کے میٹرک کا رزلٹ آیا اگلی صبح وہ پاکستان آرمی میں بھرتی ہو گئے آرمی کی سروس کے دوران ایف اے کا امتحان پاس کیا،اس کے بعد بی اے کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد بی ایڈ Bed کیا،اس طرح والد صاحب کی خواہش اور وصیت پر عمل کردیا کہ میرا بیٹا اعلی تعلیم کرے، 2002 میں پاکستان آرمی سے پنشن آئے اور چند ہفتوں بعد محکمہ تعلیم میں بطور معلم تعینات ہو گئے،

ان کی پوری زندگی محنت اور جد وجہد سے عبارت ھے ہمیشہ آگے بڑھنے کی جستجو اور صف اول میں رہنے کی تگ ودو میں رہے چاہیے آرمی کی سروس ہو یا محکمہ تعلیم میں،بطور معلم ہر جگہ صف اول میں رہے۔ کالج آف آرمی ایجوکیشن سے UEi یونٹ ایجوکیشن انسٹرکٹر کورس میں پہلی پوزیشن حاصل کی جنرل ضیاءالحق مرحوم سے تعریفی سند حاصل کی اور برگیڈ ایجوکیشن سکول میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے‘ریکوسٹ کرکے پاکستان آرمی سے پنشن آگئے ان کے والد صاحب نے سرکاری سروس کی، سروس کے دوران ان کے والد نے راولپنڈی اسلام آباد۔کلر سیداں میں جائیداد خریدیں ہوئی تھی، محمد شفیق بھٹی آرمی سروس کے دوران کلر سیداں رہائش پذیر ہوگئے،آرمی سے ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد محکمہ تعلیم میں بطور معلم تعینات ہو گئے پہلی تعیناتی پرائمری سکول ڈریال‘پھر پرائمری سکول منگال‘پھر پرائمری سکول مک پھر ہائی سکول نلہ مسلماناں اور سروس کا آخری دور پرائمری سکول مہیرا سنگال میں گزارا، پھر اس سکول سے بہت باعزت طریقے سے ریٹائرڈ ہوگئے۔تمام کے تمام سکولز تحصیل کلرسیداں اور ضلع راولپنڈی کے سینکڑوں سکولوں میں ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کرتے رہے،

وہ جس سکول میں بھی گئے عوام اور معززین علاقہ کا بھرہور اعتماد حاصل کیا، معززین علاقہ کو سکول اور بچوں کی سرگرمیوں میں برابر شریک رکھا،یوں جس سکول میں بھی گئے مقامی آبادی میں عزت اور احترام کے ساتھ رہے، مقامی آبادی کے تعاون سے بچوں کو سکول میں لائے، سکولوں کی تعمیرات کے بہت سارے کام مقامی آبادی کے تعاون سے مکمل کئے، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی وہ اچھے استاد بھی تھے اور اس کے ساتھ ایک اچھے سماجی کارکن بھی ہیں ، مقامی آبادی کے معززین کا اعتماد بحال کیا، بچوں کو سکول میں داخلے کے لئے ایک ایک گھر بھی ان کو جانا پڑا تو وہ گئے، ان کی شخصیت ہمہ جہت ہے، وہ بہترین استاد، بہترین سماجی کارکن،

مخلص دوست، اور متحرک انسان ہیں، میں نے ان کی زندگی کو قریب سے دیکھا اگر ان کی تربیت جماعت اسلامی جیسی منظم تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہوتی تو وہ اس سے بھی بہتر کام کرسکتے تھے،کیونکہ وہ متحرک انسان ہیں، ان کو تدریس سے جنون ہے ، بچوں کو پڑھانے کے لئے گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی سکول آجاتے تھے، شام تک بچوں کو بٹھا کر پڑھاتے رہتے تھے، اب سروس آخر دور میں وہ گورنمنٹ پرائمری مہیرا سنگال میں رہے، سکول کی چار دیواری بنوائی، پودے لگائے، بچوں پر بہت زیادہ محنت کی، مقامی آبادی کا ان پر بھرپور اعتماد تھا، حقیقت سے دیکھا جائے تو جس فرد کی انگلی پکڑ کر چلنے والا کوئی نہ ہو اس کے باوجود وہ اتنا بہتر پرفارم کر جائے یقیناً یہ قابل تحسین اور قابل ستائش بات ہے،میں ان کی الوادعی پارٹی میں شریک تھا جس طرح مقامی آبادی کے معززین نے ان کو الوداع کیا وہ اپنی مثال آپ تھا، اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی ان کو خوشیاں اور سکون نصیب فرمائے آمین، اسی طرح وہ ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے کردار ادا کرتے رہیں، ہم سب ان کے لئے دعا گو ہیں اللہ تعالیٰ ان کو صحت وعافیت والی لمبی زندگی عطا فرمائے آمین، ان کے والدین کی مغفرت فرمائے آمین