محسن پوٹھوہار ماسٹر محمد دلپذیر شادؒ

واجد اقبال جنجوعہ

پوٹھوہار اور پوٹھوہاری تہذیب و ثقافت خصوصاً شعراء و ادباء پر ہمیشہ تصوف کا رنگ غالب رہا ہے جس کی بڑی وجہ اس دبستانِ ادب پر فقر و درویشی کا سایہ ہے جس میں رومی کشمیر میاں محمد بخش ؒ سے سائیں احمد علی ایرانی پشوری ؒ سے آج تک کے صوفی شعراء کا فیضانِ نظر ہے شاعری ورود و آمد کے روحانی سلسلے کا نام ہے اور جو شاعری فی البدیہ و فی البدیع نہیں وہ محض لفاظی ہے عارضی ہے ناقص ہے سرزمین پوٹھوہار میں کلرسیداں کو ایک خاص ادبی و ثقافتی مرکز مانا جاتا ہے اس شہر میں ہردور میں شعراء و ادباء کی پرورش ہوتی رہی ہے انہیں نابغہ روزگار شخصیات میں ایک سخن ور جن کو اہلیانِ پوٹھوہار محسنِ پوٹھوہار ماسٹر محمد دلپذیر شاد ؒ کے نام سے جانتے ہیں وہ بھی شامل ہیں بلکہ اگر اس جملے کو یوں کہا جائے کہ ماسٹر دلپذیر شاد ؒ کے گھرانے کو نکال کر کلرسیداں یا پوٹھوہار کو دیکھا جائے تو پوٹھوہار کا ادب ادھورا اور نامکمل رہ جائے گا تو غلط نہ ہوگادلپذیر شاد ؒ کی پیدائش فضل الہی مرحوم جن کا آبائی گاؤں موہڑہ راجوال تھوہا خالصہ تھا کے ہاں 10 جنوری 1941ء کو ہوئی آپ ؒسے بڑے دو بھائی تھے۔آپ کا بچپن مسلمان بچوں کے علاؤہ سکھوں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی گزرا۔رئیس کلرسیداں سکھ سردار سردار کھیم سنگھ بیدی کی حویلی میں قائم شدہ گورنمنٹ ہائی سکول کلرسیداں سے 1957ء میں میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور ان کے فرزند صغیر آصف محمود آصف کے مطابق ان کا شاعری کا آغاز بھی اسی سال ہوا ایف اے 1959ء میں لاہور کالج سے مکمل کیا اور 1960ء میں ایس وی امتحان پاس کیا1962ء میں سرکاری سکول میں مدرس مقرر ہوئے جو کہ مختلف سرکاری سکولوں میں خدمات انجام دیتے ہوئے بالآخر 01 ستمبر 1990ء بطور سیکنڈری سکول ٹیچر ریٹائر ہوئے۔راولپنڈی کے پہلے روزنامہ”تعمیر” کے مضمون نویس صفدر ٹکالوی کے مضمون بعنوان” پوٹھوہار کا نیا ابھرتا ہوا شاعر” شاد ؒ کی ادبی شہرت سے متاثر ہو کر 03 اگست 1963ء شائع ہوا اور آپکا کلام بھی اسی روزنامے میں شائع ہوتا رہا جس میں ایک چوبرگہ آپ کا تعارفی تھا،پنڈی ضلع کہوٹہ تحصیل میری۔
اے ملک اسلامی پاکستان میرا
مرکز مشہور پوٹھوہار دا اے
قصبہ خاص کلرسیداِں میرا
خاص ڈاکخانہ کمترین دا اے
مغل قوم رکھدا خاندان میرا
ہے نام محمد دلپذیر بندیا
نالے شاد تخلص پہچان میرا
آپکی شادی دھمیال راولپنڈی میں ڈاکٹر عبدالخالق مرحوم کی ہمشیرہ سے 16 جنوری 1966ء کو ہوئی اور 10 جنوری 1969ء کو پہلی اولاد نرینہ بابائے پوٹھوہار باوا محمد جمیل قلندر ؒ تولد ہوئے۔ آپکی چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں جن میں دو بیٹیاں شاعرات تھیں اور دو بیٹے شاعر جن میں ایک باوا محمد جمیل قلندر ؒ 04 نومبر 2019 کو انتقال ہوا اور دوسرے بیٹے آصف محمود آصف بقیدِ حیات ہیں جبکہ حافظ ناصر محمود منجھلے بیٹے پوٹھوہاری شعرخوان ہیں پہلا مجموعہ کلام’انمول سخن‘کے نام سے 1966ء میں شائع ہوا جس کے بعد تواتر کے ساتھ آپ کی کتب شاعری شائع ہوتی رہیں ہیں جن میں ’بکھرے موتی‘شہادت حسین ع’سانجھے سیک‘ ’پاک وطن دی خاطر لہو‘ ’ویلے نی اکھ‘’پوٹھوہاری لغات‘ ’خوابوں کا شہر کرم‘’شان اولیاء‘’اردو غزل کا پوٹھوہاری رنگ‘’کملی والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم حبیبِ خدا‘ اور دیگر بھی شامل ہیں۔آپ کے استاد کے بارے میں مختلف آراء ہیں جن میں عوام الناس کے مطابق باقی صدیقی مرحوم جو کہ سائیں احمد علی ایرانی پشوری رحمتہ اللہ کے شاگرد تھے کے تلامذہ میں شمار کیا جاتا ہے۔واللہ اعلم جبکہ شاد ؒ کے تلامذہ میں فخر پوٹھوہار چوہدری فاضل شائق‘عابد جنجوعہ‘ عظمت مغل‘حاجی غلام ربانی‘آصف محمود آصف‘ کلیم ملک‘شیخ زاہد اور کامران کامی (یہ وہ ہیں جو آپکے فرزند کے علم میں ہیں باقی بھی) شامل ہیں آپکی ادبی خدمات میں کلرسیداں سے چھپنے والا پہلا ہفت روزہ” سنگ پوٹھوہار” جس کا اجراء 16 جون 1989ء کو ہوا۔جو متواتر 2007ء تک جاری رہا۔بعد میں ناگزیر وجوہات کی بنا پر بند ہوگیا۔راولپنڈی ریڈیو کے پروگرام ”جمہور نی واز” ”آکھو تے آکھاں ” ”چلتا پھرتا مائیکرو فون” اور بے شمار دوسرے پروگرام ان کے سکرپٹ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں جبکہ آپ نے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان پر پوٹھوہار کے شعراء کرام کو متعارف کرایا جبکہ کلرسیداں میں عالمی مشاعروں کے سرخیل بھی آپ ہی تھے۔ جس میں عالمی سطح کے فنکاروں اور شعراء کو مدعو کیا جاتا رہا ہے۔آپ عالمی ادبی تنظیم”پنجابی کانگریس” کے پوٹھوہار سے واحد مستقل ممبر بھی رہے ہیں جس کے مشاعروں میں شرکت کرنے کے لیے آپ نے بیرون ملک بھی سفر کیا۔آپ ؒ کو آپ کی ادبی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مختلف تنظیموں اور سرکاری سطح پر 24 ایوارڈز سے بھی نوازا گیا جن میں گولڈ میڈل بھی شامل ہیں۔آپ ہمہ وقت شاعر،ادیب، صحافی، سوشل ورکر، معلم، مدرس، مفکر اور بہترین منتظم تھے انہی خوبیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ٹی وی،ریڈیو،آرٹس کونسل راولپنڈی اور اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد میں محافل کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے۔ پوٹھوہاری شعرخوانی میں آپ کے اعلیٰ کلام کو ماضی اور حال میں صف اول کے شعرخوان پڑھتے رہے ہیں۔آپ کے ادبی دوستوں میں فقیر شاعر شیر زمان مرزا ؒ سید اختر امام رضوی ؒ ڈاکٹر رشید نثار، فضل الہی بہار سمیت بہت سی نابغہ روزگار شخصیات شامل تھیں۔یہ نابغہ روزگار شخصیت 9 ذوالحج بمطابق 23 ستمبر بروز بدھ 2015 ء داعی اجل کو لبیک کہہ گئی۔آپ کی ادبی خدمات اور فنی اصطلاحات سے بھرپور شاعری کے شہ پاروں سے آنیوالی صدیوں تک پوٹھوہار کے شعراء و ادباء مستفید ہوتے رہیں گے اور آپ کا کلام تشنگانِ علم و ادب کی پیاس بجھاتا رہے گا۔آپکے تلامذہ اور گھرانے سے تعلق رکھنے والے اہل علم و ادب پوٹھوہار میں کارہائے نمایاں انجام دیتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی دیتے رہیں گے۔آپ کو آپ کے کام ادبی خدمات کے اعتراف میں محسنِ پوٹھوہار کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اس لیے اہلیان پوٹھوہار بالعموم اور شعراء کرام بالخصوص یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کلرسیداں شہر کی کسی سڑک بیشک وہ ذیلی سڑک ہو کو محسنِ پوٹھوہار ماسٹر محمد دلپذیر شاد ؒ کے نام سے منسوب کیا جائے۔
آخر میں شاد رح کی وفات پر کہا گیا ایک چوبرگہ،
محسن پوٹھوہاری زبان دے نیں
جنہاں بنجر نوں آکے آباد کیتا
علم و ادب دے بیج نوں بو ہتھیں
خونِ جگر دے کے بامراد کیتا
فصل لہجہ مکمل زبان ہوگئی،
جد لغت نوں آپ ایجاد کیتا
صدیاں تیک حقیر نہ کوئی کرسی
کارنامہ جو دلپذیر شاد کیتا

اپنا تبصرہ بھیجیں