محرم میں قبروں کی کتبہ سازی میں تیزی آجاتی

مضمون نگار روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد میں سینئر سب ایڈیٹر پوٹھواری شاعر اور متعدد کتب کی مصنف ہیں

مرزاعبدالرؤف جرال کے دادا مرزا مختار حسین قیام پاکستان سے قبل مقبوضہ کشمیر کی تحصیل راجوری کے ذیلدار،تایا مرزا سخی ولایت جرال راجوری کے ہی ایک گاؤں ایہتی کے نمبر دار اوروالد گرامی مرزا عبدالغنی برٹش آرمی میں خدمات سر انجام دے رہے تھے،والدہ کا تعلق راجوری کے ہی ایک گاؤں کنکھڑی سے تھا،والد دوسری جنگ عظیم میں عراق کے محاذ پربرطانیہ کی طرف سے جنگ میں بھی شریک رہے،برطانوی حکومت کی طرف سے دیئے گئے اعزازات ایک صندوق میں موجود تھے جو 1947ء میں لاہور ریلوے سٹیشن پر کسی نے صندوق سمیت چرا لیے،مرزا عبدالرؤف جرال کا خاندان 1947ء میں ہجرت کرکے گاؤں چک جمال (دینہ) پہنچا،پھر وہاں سے 1957-58میں زمینیں اور مکانات الاٹ ہونے پر تحصیل گوجر خان کے تاریخی قصبہ نڑالی منتقل ہو گیا،

مرزا عبدالرؤف جرال 1965ء (شناختی کارڈ پر 8جون1964ء)میں نڑالی میں ہی پیدا ہوئے،1978ء میں مڈل سکول نڑالی(اب ہائی کا درجہ پاچکا)سے آٹھویں جماعت پاس کی،والد محکمہ زراعت میر پور میں ملازم تھے،بعد ازاں 1980میں بڑے بھائی مرزا عبدالقیوم بھی محکمہ زاراعت میں بھرتی ہوگئے،میٹرک کرنے کیلئے والد محترم کے پاس میر پور چلے گئے،میر پور اور گردونواح میں ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے باعث 2سال سکول بند رہے،اس لیے 1983میں گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول میر پورآزاد کشمیر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا،بعد ازاں کئی سالوں بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے 2013میں ایف اے اور 2017ء میں بی اے کیا

،1982ء میں ہی میر پور میں صوفی محمدرشید(خلیفہ مجازحضرت خواجہ صوفی محمد نواز شاہ سہروردی) کی ماربل شاپ پر بیٹھنا شروع کردیا تھا،پہلے پہل قلم اٹھاتے تو صوفی محمدرشیدڈانٹ دیتے،ایک د ن تنگ آکر کہہ دیا کہ بہت شوق ہے تو یہیں میرے پاس ہی آجاؤ،جنوری فروری1983ء میں صوفی محمدرشید کی باضابطہ شاگردی اختیار کر لی

،1983ء میں پروجیکٹ منیجر لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی میر پورمرزا محمد امین جرال جو کہ پھوپھی زاد بھائی بھی تھے نے ورک چارج بھرتی کرادیا، 15دن کام کیا تو جونیئر کلر ک کے آرڈر ہوگئے،6مہینے اس پوسٹ پر کام کیا تو سنیئر اکاؤنٹس کلرک بن گئے،جون1984میں مقامی حکومت کا بجٹ تیار کرنے کے بعد 28جون کو استعفیٰ لکھ کر پروجیکٹ منیجر کی ٹیبل پر رکھ کر نڑالی آگئے،پراجیکٹ منیجر چونکہ پھوپھی زاد بھائی تھے اس لیے انہوں نے بہت کوشش کی منانے کی،پھر انہوں نے مسلم کمرشل بینک میں بھرتی کرایا تو 14دن بعد یہ نوکری بھی چھوڑ کر آگئے،ضلع کونسل میر پور کے اس وقت کے چیئرمین چوہدری عبدالرشید اور مرزا امین آئے اور ٹیکس آفیسر سکیل 10کی آفر کی،چار پانچ دن لانچ اڈہ پر مچھلی اور لکڑی چیک کرنے گئے تو وہاں کرپشن کا بازار گرم دیکھ کر یہ نوکری بھی چھوڑ دی،نوکری کے دوران بھی ماربل شاپ پر جانے کا معمول ختم نہ کیا

ماربل پر خطاطی،کندہ کاری یا کھدائی یا انگریونگ صوفی محمدرشیدسے سیکھی،1991میں جب دولتالہ میں کام شروع کیا تو اس وقت گوجر خان کٹڑی گلی میں ملک ماربل اور ایک اور دکان تھی،مندرہ چکوال روڈ پر دولتالہ موڑ سے لیکر پیر پھلاہی تک صرف میری دکان تھی،اس لحاظ سے میں غربی گوجر خان یا قصبہ دولتالہ کا پہلا اور تحصیل گوجر خان کا تیسرا کتبہ ساز ہوں،اس شوق کے باعث متعدد سرکاری نوکریاں چھوڑ دیں

،صبح سویرے اٹھتے دکان پر جاکر کپڑے تبدیل کر کے صفائی وغیر ہ کرتے اور پھرکپڑے تبدیل کر کے نو بجے دفتر چلے جاتے،دفتر سے واپسی پر دوبارہ دکان پر پہنچ جاتے،جولائی 1984ء میں مستقل بنیادوں پر ڈگری کالج فوارہ چوک میرپورکے بالمقابل صوفی محمدرشیدکی ماربل شاپ پر مستقل بنیادوں پر بطور شاگرد بیٹھ گئے،اس دوران دل لگا کر کام سیکھا اور جون 1984سے دسمبر1984ء تک اپنے گاؤں نڑالی نہیں آئے،

کتبہ سازی کی لگن دل میں موجود تھی اسی لیے گھر والوں کو بھی بہت مشکل سے راضی کرلیا،25دسمبر1984کو گوجرانوالہ میں ناز ماربل ورکس کے نا م سے ڈیوڈھا پھاٹک میں اپنی دکان شروع کر دی،جنوری 1990تک وہاں رہے،فروری1990میں چکوال میں دکان ڈال لی،دسمبر 1990میں دولتالہ میں نئی مارکیٹ تعمیر ہوئی تو مین سٹاپ پر ایک دکان کرائے پر حاصل کی اور 1991میں نیو راولپنڈی ماربل کے نام سے اپنا کام شروع کر دیا،

مرزا عبدالرؤف نے بتایا کہ ماربل پر خطاطی،کندہ کاری یا کھدائی یا انگریونگ صوفی محمدرشیدسے سیکھی،1991میں جب دولتالہ میں کام شروع کیا تو اس وقت گوجر خان کٹڑی گلی میں ملک ماربل اور ایک اور دکان تھی،مندرہ چکوال روڈ پر دولتالہ موڑ سے لیکر پیر پھلاہی تک صرف میری دکان تھی،اس لحاظ سے میں غربی گوجر خان یا قصبہ دولتالہ کا پہلا اور تحصیل گوجر خان کا تیسرا کتبہ ساز ہوں،اس شوق کے باعث متعدد سرکاری نوکریاں چھوڑ دیں

،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کتبوں پر کندہ کاری کیلئے 1984-85میں ایران سے ایک چھوٹی مشین آئی تھی جس پر ایک چھوٹی سی بیٹری بھی لگی ہوتی تھی لیکن یہ کامیاب نہیں ہوسکی اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ ماربل یا کتبے پر زیادہ گہرائی میں کھدائی نہیں کر سکتی تھی،پنجاب میں تیزاب کی مدد سے کتبوں پر کندہ کاری کی جاتی،اس سے کام جلدی مکمل تو ہوجاتا ہے لیکن معیار برقرار نہیں رہتا اور ماربل یا پتھر کی عمر بھی کم ہوجاتی ہے

،انہوں نے بتایا کہ محرم کے ایام میں کام زیادہ ہوتا باقی گیارہ مہینے تو دکان کے اخراجات ہی بمشکل پورے ہوتے ہیں،گاہک کی جیب پر کبھی نظر نہیں رکھی،پہلے دن سے ایک فارمولا بنایا ہے کہ مناسب منافع رکھ کر کتبے اور قبریں فروخت کرنی،یہی وجہ ہے کہ اب دولتالہ موڑ سے پیر پھلائی تک 12دکانیں ہونے کے باوجود کئی سالوں سے ہمارے مستقل گاہک کہیں اور نہیں جاتے اور نہ ہی بھاؤ تاؤکرتے ہیں،

قبروں کے کتبوں پراشعار کے سوال پر انکا کہنا تھا کہ زیادہ تر لوگوں نے ہمیں اختیار دیا ہوتا ہے کہ جو شعر اچھا لگے لکھ دیں،بعض حساس لوگ اپنی مرضی سے بھی کوئی نہ کوئی شعر دیتے ہیں کہ کتبے پر یہ لکھ دیں،بچوں کے کتبوں پر
٭یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کھلا ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا
خواتین کے کتبوں پر
٭آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
(علامہ اقبال کی اپنی ”والدہ مرحومہ کی یاد میں“لکھی گئی نظم،یہ بانگ درامیں شامل ہے)
اور مردوں کے کتبوں پر
٭مرقد پہ تیری رحمت حق کا نزول ہو
حامی تیرا خدا اور خداکا رسول ہو
یا پھر
٭خدا کی تجھ پہ رحمت ہومحمد ؐکی شفاعت ہو
دعا میری سدا یہ ہے تجھے جنت کی راحت ہو
لکھے جاتے ہیں،انہوں نے بتایا کہ گذشتہ چند سالوں سے ماربل کی قبروں پر آیات لکھوانے کا رواج تقریباََ ختم ہوچکا،اب کتبے کے علاوہ باقی تمام قبر پر کچھ نہیں لکھا جاتا

۔اپنے شاگردوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دولتالہ میں دکان شروع کی تو زاہدبن اللہ رکھا آف نڑالی، محمدافضال عرف جھالاآف آہدی،مختارمحرم الحرام میں آتے،سعد(بھتیجا)،جمیل پینٹرشاگردو ں میں شامل ہیں،انہوں نے بتایا کہ 3٭6کی معیاری قبراچھے پتھر میں جالی سمیت تقریباََ32ہزار میں تیار ہوجاتی،مزارات کی بڑی قبریں فاؤنڈیشن وغیرہ کی وجہ سے لاکھ سوا لاکھ ڈیڑھ لاکھ میں بھی تیار ہوتی ہیں،گرینائٹ کی قبر 15ہزار سے شروع ہوتی اور32ہزار تک جاتی،ایک پتھر میں ساڑھے گیارہ ہزار روپے بمعہ کتبہ،ایک پتھر میں ساڑھے 16ہزار،ایک میں ساڑھے 19ہزار،اچھے پتھر میں ساڑھے 28ہزار روپے میں بھی بن جاتی ہے۔کتبہ 2فٹ کا 15سو روپے سے شروع ہوتا اور 3ہزارروپے تک جاتاہے۔دولتالہ میں کام کا آغاز کیا تو ڈھوک حسو سے سامان لاتا تھا،اس وقت ڈھوک حسو میں تین فیکٹریاں ہوتی تھیں،جن کے مالکان کے نام چوہدری جلال دین،حاجی محمد اسحق،حاجی علی زمان اور چوہدری بشیرتھے،اب سامان مقامی سطح پر بھی مل جاتاہے لیکن ہم راولپنڈی میں سٹی صدرروڈ اور ڈھوک حسو سے ہی لاتے ہیں کٹنگ کروا کے۔لکھائی میں استعمال ہونیوالے رنگوں کے بارے میں انکا کہنا تھا عام سفیدسیمنٹ اور کالا پینٹ استعمال ہوتا لکھائی میں پوٹین کی شکل میں،مٹی ریت اور دھوپ کی وجہ سے کتبے کا رنگ ختم جاتاہے،بروقت صفائی ہوتی رہے تو پندرہ بیس سال تک رنگ ختم نہیں ہوتا،کتبوں میں زیادہ ترسبز،سرخ،کالا رنگ زیادہ استعمال ہوتاہے،انہوں نے بتایا کہ کندہ کاری کیلئے ایک خاص قسم کی ہتھوڑی لاہور سے لائی جاتی ہے ، چھینی بھی خاص قسم کی استعمال ہوتی،پہلے پہل یہ چھینی ریلوے کے باریک سپرنگ سے تیار ہوتی تھی،پھرگرینائٹ پر کام کرنے کیلئے انڈیاسے ایک چھینی منگوائی جاتی رہی

،پنڈی کے ایک حاجی صاحب جو انڈیا سے ہجرت کر کے آئے تھے وہ اپنے رشتے داروں کے پاس انڈیا جاتے رہتے تھے وہ ہمیں اس وقت ساڑھے پانچ سو یا چھ سو میں لاکر دیتے تھے،اب گرینائٹ والے پتھر کی اچھی چھینی 1450روپے کی ملتی،عام چھینی ہزار،بارہ سور روپے تک مل جاتی،عام ماربل پر استعمال ہونے والی150 روپے تک ملتی ہے۔پہلے ہاتھ سے محرابیاں وغیرہ بنائی جاتی تھیں،پہلے پہل جب میں نے ماربل کٹر لیا وہ اس وقت چودہ سوروپے میں ملاتھا اب وہی اچھا گرائنڈرسٹیل باڈی میں ہٹاچی کا32 ہزارروپے کا ملتا ہے،چائنہ کے گرائنڈر 18ہزار روپے تک مل جاتے،بلیڈ پہلے پہل 150کا ملتا تھا اب پندرہ سو دوہزار روپے میں ملتا اور سٹیل والا بلیڈ5سے 6 ہزار روپے تک ملتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں