محدث اعظم

احکام اسلام کے چار بنیادی ماخذ ہیں قران کریم‘حدیث مبارکہ‘اجماع‘ قیاس ان میں اولیت قرآن کریم کو حاصل ہے لیکن قرآن کریم کو بھی سمجھنے کے لیے حدیث مبارکہ کی ضرورت پیش آتی ہے کیوں کہ قرآن کریم میں اجمال ہے تفصیل نہیں جیسے فرمایا واقیمو الصلواۃ (نماز قائم کرو) اب نماز کیا ہے کیسے ادا کرنی ہے اس کی ساری تفصیل و وضاحت حدیث مبارکہ میں ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نماز ادا کرو جیسے مجھے ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو(بخاری) اسی طرح کے اور بے شمار احکام ہیں اس کے علاوہ دیگر اوامر و نواہی ہیں جو صرف اور صرف حدیث مبارکہ سے ہی ثابت ہیں اس لیے دین اسلام میں حدیث مبارکہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اس بنا پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حفاظت حدیث پر خصوصی توجہ مبذول کی اس وقت ضرورت تھی کہ احادیث کو جمع کیا جائے تو صحابہ کرام اور ان کے شاگردوں کبار تابعین اور تبع تابعین نے یہ بیڑا اٹھایا احادیث مبارکہ کو کتابی شکل میں جمع کرنا شروع کر دیا جس کی اولین مثال صحیفہ ہمام بن منبہ‘ صحیفہ صادقہ‘مسند امام اعظم‘مسند عبداللہ بن مبارک‘موطا امام مالک‘ مسند امام احمد بن حنبل وغیرہ بعد ازاں امام بخاری و امام مسلم ودیگر نے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا پھر محدثین نے گمراہ فرقوں کے کذب و افترہ سے بچنے کے لئے اسماء و الرجال کا علم وضع کیا تاکہ حدیث مبارکہ کی صحت کو پرکھا جا سکے اور مراتب حدیث کا علم ہو سکے تدوین حدیث اور حکم حدیث کا کام تقریباً مکمل ہو چکا تھا قرون اولیٰ کے دور کا اختتام بھی ہو چکا تھا اب ضرورت محسوس ہوئی کہ کلام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد کم فہم وفراست کم علم والے بھی سمجھ سکیں اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے کبار محدثین نے کتب حدیث کی شروحات و حواشی لکھنے شروع کر دیے تاکہ یہ فیض تا قیامت جاری وساری رہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری وساری ہے وقت کے تقاضوں و چیلنجز اور جدید مسائل کے تناظر میں شروحات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے قدیم کتب میں متعلقہ موضوع کی حدیث تلاش کرنا مشکل کام ہے اس دور کی اشد ضرورت تھی کہ کوئی مرد مجاہد اٹھے اور اس بھاری اور مشکل ترین ذمہ داری کو نبھائے جس میں یہ صلاحیت ہو کہ پوری دنیا کے جدید چیلنجز مشکلات و مسائل سے مکمل آگاہ بھی ہو اور احادیث مبارکہ کے سارے ذخیرے پر مکمل عبور بھی حاصل ہو تاکہ وہ ان سارے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قدیم ذخائر علمیہ کو کھنگال کر نئے ابواب نئی فصول نئے نئے عنوانات قائم کر کے نئے سرے سے احادیث مبارکہ کی کتاب مرتب کرے تاکہ آئندہ نسلوں کو راہنمائی مل سکے اس عظیم کام کے لئے اللہ رب العزت کی نظر لطف وکرم اپنے ایک بندے پر پڑی اور اسے اس کام کے لیے چن لیا اس پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاص نظر کرم ہے اسی لئے وہ کم وقت میں زیادہ کام کر لیتا ہے اس کی اس وقت تک 515 کتابیں ارود انگلش عربی میں چھپ چکی ہیں کئیوں کے دیگر زبانوں میں تراجم بھی ہو چکے ہیں سلیس عام فہم اور جدید سائنسی ترجمۃالقران بنام عرفان القرآن کیا اس کے ساتھ ساتھ آٹھ جلدوں پر مشتمل قرآنی انسائیکلوپیڈیا بھی لکھ چکے ہیں اور اردو زبان میں سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے ضخیم کتاب بارہ جلدوں پر مشتمل لکھی جس کا مقدمہ صرف دو جلدوں پر مشتمل ہے جس میں دور جدید میں سیرت طیبہ کی ضرورت واہمیت و افادیت کا ذکر کیا گیا ہے یہ شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں بقول علامہ عبد الرحمن اشرفی مرحوم مہتمم جامعہ اشرفیہ ان کا کام ہی ان کا تعارف ہے جس کے سامنے علماے عرب بھی زانوئے تلمذ تہہ کرنا شرف سمجھتے ہیں اس شخصیت کو دنیا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے نام سے جانتی ہے اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت بھی ان کے حصہ میں ڈالی کہ حدیث مبارکہ کا یہ کام بھی وہ کریں یہ کوئی آسان اور چھوٹا کام نہیں تھا کہ چودہ سو سالہ سارے علمی ذخیرے کا مطالعہ کرنا اور پھر نئے نئے موضوعات کے مطابق الگ کرنا اور ترتیب دینا بلکہ جان جوکھوں کا کام تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے آسان کر دیا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی توفیق سے 136 چھوٹی بڑی حدیث مبارکہ کی کتابیں چھپ چکی ہیں جن میں دو جلدوں پر مشتمل ھدایۃ الامہ اور آٹھ جلدوں پر مشتمل معارج السنن کے نام سے کتابیں بھی شامل ہیں اور دوسرا کام جو منظر عام پر آنے والا ہے وہ ہے مسند امام علی رضی اللہ عنہ جو پندرہ جلدوں پر مشتمل ہے جس میں چودہ سو سالہ قدیم علمی ذخیرہ چھان کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی بارہ ہزار سے زائد مرویات کو جمع کیا گیا ہے جبکہ ہمارے ہاں معروف یہ ہے کہ آپ سے500 سے زائد احادیث مروی ہیں دوسرا ہم احناف پر سب سے بڑا اعتراض اہل رائے ہونے کا تھا کہ احناف کے پاس قرآن وسنت کے صریح دلائل نہیں ہیں اس اعتراض کو بھی آپ نے ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے فقہ حنفی کے احکام پر دلالت کرنے والی احادیث کو جامع الاحکام من احادیث خیرالانام نامی کتاب میں جمع کیا ہے جو تقریباً دس جلدوں سے زائد پر مشتمل ہے جو چھپنے کے مراحل میں ہے اور سب سے بڑا اور اہم کام جامع السنہ (انسائیکلوپیڈیا آف حدیث) کا ہے جو تقریباً چالیس جلدوں پر مشتمل ہے وہ بھی عنقریب منظر عام پر آ رہا ہے یہ وہ کام ہے جسے عرب و عجم میں کسی اور کو کرنے کی سعادت نہیں ملی اور جس کی اس دور میں اشد ضرورت بھی تھی تو پھر یہ کہنا اور ماننا پڑے گا کہ آپ اس دور کے محدث اعظم ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں