محبت بانٹنے والاطاہر یٰسین مرزا

شاہد جمیل منہاس

درد دل رکھنے والا یہ انسان اللہ کے بندوں کی بہت زیادہ قدر و پیار کرتا تھا
مغل پڑی اور میرا چھپر دستِ شفقت بانٹنے والے باپ سے محروم ہو گئے
خلق خدا سے محبت بانٹنے والا طاہر مرزا یوں اس فانی دُنیا کو چھوڑ کر گیا جیسے چند لمحوں کے لیئے آ کر ہزاروں برس کا کام کر گیا ہو۔ درد دل رکھنے والا یہ انسان اللہ کے بندوں سے اس قدر پیار کرتا تھا کہ جس شخص کو ایک بار مل لے اُسے مرتے دم تک دل میں بسا لیتا تھا۔ ان سے دوبارہ ملنے والا فرد ان کی محبتیں دیکھ کر سوچ و بچار میں مبتلا ہو جاتا کہ یہ مردِ قلندر اتنے پیار سے کیوں مل رہا ہے۔ طاہر یٰسین محبتیں تقسیم کرنے کے بعد اُس شخص کو بتاتا کہ فلاں جگہ ہماری ملاقات ہوئی تھی یہ اُس پیار بھری ملاقات کا صلح ہے کہ جسے میں ازسرنو زندہ کر رہا ہوں۔ آج مغل پڑی اور میرا چھپر دستِ شفقت بانٹنے والے باپ سے محروم ہو گئے۔ ربّ کے دربار میں جانے سے پہلے جب طاہر یٰسین مرزا PIMS ہسپتال میں آئی سولیشن وارڈ میں ربّ سے ملاقات کے لیئے دوسرے جہاں یعنی ابدی زندگی کی شارع پر کھڑے تھے تو میں اُن کی تیمارداری کے لیئے گیا۔ وہاں جا کر معروف قانون دان ایڈووکیٹ نبیل مرزا کو دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے کسی چار پانچ برس کے بچے کے ہاتھ سے بھرے بازار میں باپ کی اُنگلی چھوٹ گئی ہو۔ اُس دن میں تھا اور نبیل مرزا کے دو اور دوست تھے مگر میں نے نبیل کو اکیلا پایا۔ اس کی روشن آنکھوں میں دل ہلا دینے والے طوفان برپا تھے۔ وہ خود کو دل ہی دل میں تسلیاں دے رہا تھا مگر ہم رائٹرز کو کوئی بتائے نہ بتائے ہم انسان کے لب و لہجے سے اُس کی خوشی یا پریشانی کو جان کر ایک خاکہ ترتیب دے دیتے ہیں۔ اُس دن نبیل کی حالت جون یا جولائی کے روزے دار والی تھی کہ جب وہ سارا دن اولاد کے لیئے محنت کر کے مغرب کی اذّان کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ اُس دن ہم سب کی مغرب آ کر چلی گئی مگر نبیل کی مغرب بس عصر تک آئی اور پھر رُک گئی۔ مفہوم پاک ہے کہ ”وقت عصرکی قسم کہ انسان خسارے میں ہے“۔اُس دن اہل علاقہ کو اتحاد کے بندھن میں محفوظ کرنے والا نبیل کا باپ نبیل کو جاتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اور وہ نہ چاہ کر بھی اُسے واپس نہ لا سکا۔ پروین شاکر کا یہ شعر اُس عنوان پر خوب جچتا ہے۔
اتنا سمجھ چکی تھی میں اُسکے مزاج کو
وہ جا رہا تھا اور میں حیران بھی نہ تھی
شجاعت مرزا اور جاوید مرزا کی بے قراری دیکھی نہ جا رہی تھی۔ در اصل طاہر یٰسین مرزا ایک صاف شفاف نیت والا انسان تھا جسے”تھا“ لکھتے ہوئے دل کانپ جاتا ہے۔ صبر کا لفظ تین حروف پر مشتمل ہے۔ مگر یہ تین کروڑ حروف سے بھی زیادہ بھاری ہے۔ آج لواحقین کے گلے لگ کر ہر کوئی دلاسہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ صبر کریں مگر یاد رکھیں جس پر بیت رہی ہوتی ہے کبھی اُس سے پوچھیں کہ صبر ہوتا کیا ہے۔ بیٹا جب زبان سے پہلا لفظ ادا کرتا ہے تو والدہ کی خوشی کی انتہا نہیں ہوتی اور گھر میں آنے والی ہر عورت کو وہ سب سے پہلے یہ بتاتی ہے کہ میرے بیٹے یا بیٹی نے آج بولنا شروع کردیا ہے مگر باپ کو جب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اولاد نے بولنا یا چلنا شروع کر دیا ہے تو پورے محلے گاؤں یا شہر میں گھوم کر دوستوں اور رشتہ داروں کا بتاتا ہے کہ آج میرے بیٹے نے چلنا شروع کر دیا ہے۔ وہ دن والدین کے لیئے زندگی کا سب سے خوشگوار دن ہوتا ہے۔ طاہر یٰسین مرزا ایک بہترین دوست، بہترین بھائی اور بہترین باپ تھا۔ مگر ماضی میں ایک بہترین بیٹا بھی رہا۔ نماز جنازہ میں
عوام کا جم غفیر تھا۔ ہر آنکھ نم تھی۔
بیٹھے تھے آنکھ پونچھ کر دامن نچوڑ کر
اب کیا کریں کہ پھر سے کوئی یاد آ گیا
طاہر یٰسین اہل علاقہ کا روشن ستارہ تھا۔ دوسروں کے لیئے آسانیاں تقسیم کرنے والایہ درویش صفت انسان ایک طویل زندگی گزارنے کے بعد یوں غائب ہوا کہ جیسے چند دن قبل آیا ہو اور اچانک چل دیا۔ یا د رکھیں کچھ افراد بہت کم عرصے کے لیئے اس دُنیا میں آتے ہیں مگر دُنیا ان سے نالاں اور تنگ ہوتی ہے اور اس شخص کو دیکھ کر پریشان پائی جاتی ہے مگر اللہ کے بندوں سے پیار کرنے والے افراد سو برس زندہ رہ کر بھی جب اس دُنیا کو چھوڑ کر جاتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کل آیا ہو اور آج چلا گیا۔ آج طاہر مرزا کے ارد گرد بسنے والے افراداُسے یاد کر کے اشک بار ہیں کہ وہ ایک مخلص اور خُدا کی مخلوق سے پیار کرنے والے انسان سے محروم ہو چکے ہیں۔ میں جب اُن سے ملتا تو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے تاریکیوں سے نکل کر روشن راستوں پر چلنے والے مسافر کے ساتھ چل رہا ہوں۔ کم گو مگر جب بات کرتے تو تربیت، انسانیت اور خلوص ٹپک رہا ہوتا۔ کسی کے معاملات میں ہر گزدخل اندازی نہ کرتے۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ وہ معاملات کو سُلجھانے والاسُلجھا ہوا انسان تھا۔ آج میرا چھپر کے مکین سینکڑوں کی تعداد میں ہو کر بھی خود کو تنہا محسوس کر رہے ہیں۔ اولاد کے غموں کی ڈھال اور بیٹیوں کے دل کا قرار وہاں چلا گیا جہاں سے واپسی کا گمان بھی محال ہے۔ جانے والوں کو بھلا کبھی کوئی روک پایا ہے۔ ہم سب نے واپس جانا ہے مگرجانے کے بعد ہمارا کردار ہی ایک ایسا روشنی کا مینار یا اندھیروں میں ڈوبا بازار ہوتا ہے جو آپ کو جنّت کا شہزادہ بناتا ہے یا جہنم کا ایندھن۔ جب میت اُٹھا کر قبرستان کی طرف جانے لگے توایک نو جوان نے اپنے کسی بزرگ سے کہا کہ آج ہم ایک با کردار انسان سے محروم ہو گئے ہیں۔ وہ نوجوان قبرستان کی طرف نہ گیا۔ یقینا وہ نہ توچھپر میرا یا مغل پڑی کا تھا بلکہ وہ کسی دوسرے علاقے سے آیا تھا مگر اُس کے ایک جملے نے طاہر یٰسین کی ساری زندگی کا نچوڑ دے دیا۔ اس کے بعد میں سمجھ گیا کے طاہر یٰسین مرزا کامیاب ترین ٹھہرا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں