مجھے ڈر لگتا ہے

شاہد جمیل منہاس/فرحت بھٹی اُس دن خشک آنکھوں سے ارد گرد کے ماحول کو بھگو رہا تھا۔ وہ نہ رو کر بھی آنسوؤں کے سمندر میں تیر رہا تھا۔ ماں کی جُدائی بھی بڑی عجیب ہوتی ہے۔ فرحت بھٹی کی والدہ کی وفات کے بعد اُن کے گھر تعزیت کے لیئے گیا تو معلوم ہوا ”ماں باپ کو مرنا نہیں چاہیے زندگی کا مفہوم ہی ختم ہو کر رہ جاتا ہے“۔ فرحت بھٹی وارڈن انسپکٹر ہے اور انتہائی نفیس انسان ہے۔ پوٹھوہاری تہذیب کو خود سے الگ ہونے نہیں دیتا۔ دراصل یہی خاندانی لوگوں کی خوبی ہواکرتی ہے۔ ایسے افراد اپنے کلچر کو کبھی فراموش نہیں کرتے اور ہر جگہ اپنی بُنیاد کا تعارف کروا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ فرحت بھٹی ظفر شہید کا بھتیجا ہے۔ ظفر کی یاد آتی ہے تو دل خون کے انسوروتا ہے۔ وہ جوانی ہی میں ایک معصوم بچی کو چھوڑ کرکلر سیداں روڈ پر ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا تھا۔ آج ظفر کی بیٹی انتہائی پڑھی لکھی، سلجھی ہوئی اور اپنے والد کا نام روشن کر رہی ہے باپ کی کمی کو اپنے اندر چھپائے ہوئے۔ بات ہو رہی تھی ماں کی تو مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ فرحت بھٹی اپنی والدہ کی باتیں بتا رہا تھا اور میں شدت جذبات سے عیاں ہو رہا تھا۔ مگر فرحت بے بہا کوشش کے باوجود خشک آنکھوں سے اپنے اکیلے پن کا پتہ دے رہا تھا۔ اُس کی پلکیں تو نم نہ تھیں مگرسُرخ اتنی کے بلا کا قہر تھااُن میں۔ ظاہر ہے جب کوئی آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرے گا اُس کا کچھ تو ردِ عمل ہو گا۔ جی ہاں اُس کا ردِ عمل فرحت کی آنکھوں کی سُرخی کی صورت میں سامنے آرہا تھا۔ اُس نے بتایا کہ میری والدہ سب کی والدہ تھی۔ سب کے لیئے محبت کے جذبات رکھنے والی بہترین خاتون تھیں۔ اپنا ہو یا پرایا ہر کسی کے غم میں اپنے غم کی طرح شریک ہو کر یہ باور کرواتی کہ انسانیت ہے کیا۔ وہ کافی بیمار تھیں مگر گھر والوں نے اُن سے چھپائے رکھا۔ الوداع ہونے سے دو دن قبل کہنے لگیں مجھے کوئی بڑی بیماری ہے آپ مجھے بتا نہیں رہے۔ دراصل اُنہیں معلوم ہو چُکا تھا کہ اب وہ جانے والی ہیں۔ بزرگ واقعی گھنے پیڑ کی چھاؤں ہوتے ہیں۔ فرحت بھٹی نے بتایاراولپنڈی میں ہمارے جاننے والوں میں ایک شخص بھری جوانی میں فوت ہو گیا اور ایک بیٹی باپ کے بنا رہ گئی تھی۔ جب وہ جوان ہو ئی تو اُس کی شادی ابھی ہونی تھی۔ میری والدہ نے میری بڑی بہن کو بلایا اور کہا کہ گاؤں جاؤ اور فلاں جگہ پر مٹی کے دوغلے یعنی (Money Box) پڑے ہیں وہ لے آؤ۔ میں بہت سالوں سے اُس میں پیسے ڈال رہی ہوں تا کہ اُس بچی کی شادی پر اُسے دے سکوں۔ یہ سُن کر میں تو حیران اورششدر سا ہو کر رہ گیا۔ نہ جانے کب سے اپنی ضرورتوں کو قُربان کر کے وہ جنتی خاتون اپنی جمع پونجی اُس یتیم بچی کے لیئے جمع کررہی تھیں۔ ہمدردی کے جذبات انسان کو جنت کا مکین بنا کر ہی دم لیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کے فرحت بھٹی کی والدہ کی صرف یہی نیکی اُنہیں جنت کا مسکن عطا کر دے گی۔ فوتگی سے ایک دن قبل اپنے بچوں سے کہتی کہ میرے پاس اس دُنیا کے دن بہت کم رہ گئے ہیں۔ اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ نیک لوگوں کو قدرت کی طرف سے اشارے ہو جایا کرتے ہیں۔ جُدا ہونے سے چند دن قبل کہتی ہیں مجھے گاؤں لے جائیں۔ جب گاؤں پہنچ گئیں تو کہنے لگی کہ مجھے میرے مرحوم بھائی کے گھر کے پاس لے جائیں۔ گاڑی گھر کے پاس رُکی مگر وہ گاڑی سے اُتر نہ سکیں کیونکہ وہ گھر کافی اُترائی میں ہے لہذا واپسی اُن کے لیئے کافی مشکل ہو جاتی۔ سوچوں میں گم سنم بھائی کے گھر کی طرف دیکھتی رہیں اور سوچتی رہیں۔ فرحت اور باقی گھر والے جب واپس گاڑی کی طرف آئے تو امّاں جی کی گاڑی کے ارد گرد بچوں کا ایک ہجوم لگا ہوا تھا۔ بچے پیار کے بھوکے ہوتے ہیں اور وہ بزرگ خاتون ساری زندگی پیار ہی تو تقسیم کرتی رہی۔اُس دن فرحت بھائی کی
والدہ، مرحوم بھائی کے گھر بھی نہ جارہی تھیں اور وہاں سے دو قدم آگے پیچھے بھی نہیں ہونا چاہ رہی تھیں۔ بھائی کی جُدائی کا پل پل اُس دن اُن کو یاد آ رہا تھا۔ فرحت بتاتا ہے کہ وہ سب بیٹوں کے پاس رہا کرتی تھیں۔ مگر ایک دن سے زیادہ نہ رُکتی۔ وفات کے دن قریب آرہے تھے اور میری والدہ اپنے رشتوں کے قریب تر ہو رہی تھی۔ ایک دن کہنے لگیں مجھے واہ فیکٹری میری بیٹی کے پاس لے جاؤ۔ وہاں بھی لے گئے۔ یہ موت بھی بڑی تڑپا دینے والی چیز ہے، ایک جگہ آرام سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ میری والدہ نے اس دُنیا سے جانے سے چند دن قبل سب رشتوں سے ملنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ ہم سب کو چھوڑ کر جانے سے پہلے جب گاؤں گئیں تو ظفر بھٹی مرحوم کی ذوجہ سے ملنے کی خواہش کی۔ اِتفاق سے وہ کراچی سے آئی ہوئی تھیں۔ دونوں نے خوب ماضی کی یادوں کو تازہ کر کے دل کا بوجھ ہلکا کیا۔ فرحت بھٹی باتیں کرتا جا رہاتھا اور میں ایک بیٹے سے اُس کی والدہ کی جُدائی کے دُکھ اور قرب میں گرفتار ہوتا جا رہا تھا۔ جس دن میں فاتحہ کے لیئے اُن کے گھر گیاوہ ہفتے کا دن تھا۔ اُس سے ایک دن قبل نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد جب سلام پھیرا تو فرحت میرے آگے والی صف میں تھا۔ جب میں مسجد سے باہر نکلا تو فرحت میرا انتظار کر رہا تھا۔ مجھ سے ہاتھ ملایا اور فوراََ کہنے لگا: ”میری امّی فوت ہو گئیں ہیں“۔اُس وقت فرحت دو سال کا بچہ محسوس ہو رہا تھا اور مجھے یوں لگا کہ جیسے کسی معصوم سے اُس کی والدہ اچانک جُدا ہو گئی ہو۔ اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ اولاد جتنی بھی بڑی ہو جائے والدین کے لیئے کم سن ہی ہوا کرتی ہے اور اولاد والدین کے سامنے ہر عمر میں خود کو کم عمر ہی محسوس کرتی ہے۔ دُکھ اِس بات کا ہے کہ میں فرحت بھٹی اور توصیف بھٹی کی والدہ محترمہ کے نمازِ جنازہ میں شریک نہ ہو سکا۔
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں