مجھے اللہ کی ذات پرپورایقین ہے

کسی انسان کاکسی جگہ کام کرنے سے اس کامحکمہ اوراس کاعہدہ کافی حدتک یا بہت زیادہ حدتک اس کی عادات سنوارنے یابگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ کی ذات عہدہ،مرتبہ اورحکمرانی وغیرہ دے کرانسان کوآزماتی ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غربت،مفلسی اور لاچاری جیسے حالات میں ہر کوئی اچھا ہی ہوتا ہے۔ لیکن جب اللہ کسی کوبااختیاربناتاہے تواس کی اصلیت اس وقت سامنے آتی ہے۔یعنی جب کوئی شخص بااختیارہوتاہے تواس کااصل روپ سامنے آجاتاہے۔بے اختیاری کے زمانہ میں انسان کے بے بس ہوجانے کی وجہ سے وہ اپنی خرابیاں عیاں نہیں کرپاتا۔مثال کے طورپردولت کے حوالے سے کہاجاتاہے کہ دولت فسادکی جڑہے۔دولت کی وجہ سے بھائی بھائی کادشمن بن جاتاہے اوراولادوالدین کوماں باپ ماننے سے انکارکردیتی ہے۔بعض والدین بھی اس دولت کے نشہ میں اولادکوعاق کرکے یہ ثابت کردیتے ہیں کہ یہ دولت صرف انہی کی ہے۔ایک بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ ان سب خرابیوں کے باوجودکچھ لوگ دولت کی بہتات کے ہوتے ہوئے بھی اللہ سے ڈرڈرکر اپنی زندگی کے عارضی ایام گزارتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جواللہ کی ذات پرپختہ یقین رکھتے ہیں۔یہ وہ افرادہوتے ہیں جوہرلمحہ یہ یادرکھتے ہیں کہ یہ دنیاعارضی ہے اوریہ دولت وثروت،مناصب اورعہدے یہیں رہ جائیں گے اورصرف دوگزکفن ہی اس کے ساتھ جائے گا۔یعنی ان لوگوں کے لئے دولت وثروت تباہی کاسبب نہیں بنتی بلکہ یہی دولت انہیں جنت کی طرف لے کر جاتی ہے۔اس کامطلب یہ ہواکہ دولت بذات خودکوئی بری یااچھی شے نہیں۔یہ دس،بیس،سویاہزارکے جونوٹ ہیں،یہ فقط کاغذکے ٹکڑے ہیں۔اصل چیز دولت کااستعمال ہے۔اگردولت کسی اچھے کام کے لئے صرف کی جارہی ہے تودولت بہت بڑی نعمت ہے اور اگر دولت کسی برے کام پرخرچ کی جارہی ہے توپھردولت فسادکی جڑہی توہے۔اس نظریہ کی مزیدوضاحت کے لئے ایک مثال دی جاسکتی ہے کہ ایک شخص کے پاس سوروپے ہیں اوروہ اس رقم سے سگریٹ خریدکراستعمال کرتاہے۔ دوسرے فردکے پاس بھی سوروپے ہیں اوروہ ان سے کوئی کتاب خریدکرپڑھتاہے۔اب دولت دونوں افرادنے خرچ کی ہے لیکن اس خرچ کے اندازاورمصرف میں کافی فرق ہے۔جس شخص نے سگریٹ خریدکرنشہ کیاوہ دولت کاغلط استعمال کرکے یہ ثابت کررہاہے کہ دولت بہت بری چیزہے۔جبکہ دوسرافرداپنی دولت سے کتاب خریدکریہ ثابت کررہاہے کہ دولت بہت اچھی چیزہے۔بات پھروہی ہے کہ دولت بذات خودسونے چاندی کے سکوں یاکرنسی نوٹوں کی صورت میں ہی ہے کہ جن کی کوئی اہمیت نظرنہیں آتی۔لیکن اسی دولت نے اقوام عالم میں انقلاب برپاکردیااورثابت کردیاکہ غربت کامطلب”دولت کانہ ہونا“ہے۔یعنی جس آدمی کے پاس اخراجات کے لئے رقم نہ ہووہ پریشانی سے دوچاررہتاہے۔اورجس آدمی کے پاس مناسب ذرائع موجودہوں وہ اپنی زندگی باآسانی گزارسکتاہے۔اس سے ثابت ہواکہ غربت بے شمارمسائل کاباعث بن سکتی ہے۔غربت کی وجہ سے لوگوں کوخودکشی جیسے حالات سے بھی گزرتے ہوئے پایاگیاہے۔غربت کی وجہ سے آج اورکل کے گزرے ہوئے انسانوں نے بے شمارجرائم کاارتکاب کیا۔اللہ کی ذات سے ہمیشہ دعاکرنی چاہیے کہ اگراللہ کی ذات کسی انسان کودولت،ترقی یاکوئی بڑاعہدہ دے تووہ ذات اس انسان کواللہ سے ڈرنے والابھی بنائے۔تاکہ یہ خوشحالی اس کے لئے جنت کاسبب بنے نہ کہ آخرت کی ناکامی اوردوزخ کی آگ کا۔دو برس قبل اپنے دوستوں کے ساتھ پنجاب پولیس کے ایک ڈی ایس پی سلیم خٹک صاحب کے ساتھ چائے کی میزپربیٹھنے کااتفاق ہوا۔ وہ انتہائی بااخلاق اورپڑھے لکھے انسان ہیں،لہٰذامجھے بہت اچھے لگے۔جس بات نے مجھے متأثرکیاوہ ایک چھوٹاساواقعہ ہے جومیرے مشاہدے میں آیا۔ہم گپ شپ میں مصروف تھے کہ ان کے موبائل پرکسی کافون آیا۔فون سن کروہ انتہائی پریشان ہوگئے اورفون کرنے والے شخص سے کہنے لگے کہ”آپ سب سے پہلے زخمی بھائیوں کوہسپتال لے
کرجائیں،ان کاعلاج کرائیں اورہرممکن کوشش کریں کہ سب لوگ باحفاظت رہیں۔کیونکہ ان کے گھروالے اوربچے ان کاانتظارکررہے ہوں گے۔“اس جملے نے مجھے بہت مطمئن کیااورمجھے فخرمحسوس ہواکہ پاکستان کی پولیس میں پڑھے لکھے اورسینے میں دل رکھنے والے افرادبھی موجودہیں جوعوام کے ہمدرداورخدمت گارہیں۔اس دن میرے دل میں اس محکمے کے لئے احترام کے جذبات مزیدپختہ ہوگئے۔بات ہورہی تھی دنیاوی خوشحالی،دولت وثروت،عہدے اورمرتبے کی جوانسان کے پاس جب آتے ہیں تواس کاتعارف ہوناشروع ہوجاتاہے۔اس دن سلیم خٹک صاحب کواپنے اختیارات کااستعمال کرتے ہوئے دیکھاتودل باغ باغ ہوگیا۔میرے دل سے بے اختیاران کے لئے اوراس ملک کے لئے ڈھیرساری دعائیں نکلیں کہ اللہ اس ملک کے مقدرمیں ایسے فرض شناس افسران لکھ دے کہ یہ قوم مزیدمشکلات برداشت نہیں کرسکتی۔جب ایسے محنتی اوراللہ کے بندوں سے پیار کرنے والے افسران مختلف محکموں میں موجود ہوں گے تووہ وقت دورنہیں کہ اس ملک کے عوام صرف اپنے ملک پاکستان میں موجودذرائع کوبروئے کارلاکربغیرکشکول کے ترقی کی منازل طے کریں گے۔اوراس کے بعدجونسل کشکول کے بغیرپرورش پائے گی وہ اپنے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے متزلزل ہرگز نہیں ہوگی۔ یادرہے کہ مقروض اقوام سراٹھاکرہرگز زندہ نہیں رہ سکتیں۔جبکہ قرض کے بوجھ سے آزاد قومیں عزت نفس کوقائم رکھتے ہوئے سراٹھاکراقوام عالم میں روشن وتابندہ ہو جایا کرتی ہیں۔مجھے ربّ کی ذات پرپورایقین ہے کہ ملک پاکستان کے کونے کونے میں بسنے والاہرانسان خوشحال بھی ہوگااورعاجزی وانکساری کاپیکربھی۔مگرشرط یہ ہے کہ ربّ رحیم جب عہدے،مرتبے اوردولت وثروت عطاء کرے توبجائے اکڑکرچلنے کے ہم مزیداللہ سے ڈرنے والے بن جائیں۔کہ وہ ربّ کرسیاں، وزارتیں، عہدے اور مرتبے دے کربھی آزماتاہے اورمحروم رکھ کر بھی آزماہی رہاہوتاہے۔
٭……٭……٭

اپنا تبصرہ بھیجیں