برصغیر کو اللہ رب العزت نے بڑے بڑے نامور راہنما عالم دین مجاہدین اسلام غازی شہداء اور عظیم خطباء سے نوازا جن کا اپنے وقت میں ڈنکابجا‘ اسی طرح اللہ رب العزت نے اس خطہ کوایسے خطباء حضرات سے بھی نوازا جواپنے خطابات کوقرآن وسنت کی تعلیمات مزین کرتے‘ ان میں جاندار گرجدار آواز میں اپنے انداز خطابت سے روح پھونکتے‘شعلہ بیان عجیب نکتہ دان سے ایسے دلائل کاانبارلگاتے جہاں سامعین مطمئن نظرآتے‘ ایمان تازہ کرتے نظرآتے‘ وہاں دوسری طرف مخالفین پر گویا قہر بن کر برستے‘ ان خطباء حضرات میں سے ایک نام سادات خاندان کے چشم وچراغ خطیب بے مثال شیریں وشعلہ بیان قادیانیت کے لئے موت کاپیغام حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمت اللّٰہ علیہ کابھی ہے۔ آپ کاشمار برصغیر کے نامور خطیب خطیب اسلام عجیب نکتہ دان شعلہ بیان اسیر تحفظ ناموس رسالت انگریز کے باغی مسلمان کے طور پر ہوا۔آپ اپنے وقت میں برصغیر میں قدم جمائے انگریز اور قادیانیت کے سخت ترین مخالف سمجھے جاتے تھے۔ آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ آپ انگریز اوراس کے لگائے گئے ناپاک بدبودار کانٹے دار پودے قادیانیت کے سخت مخالف تھے اور ان دونوں کی نفرت آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اسی پاداش میں آپ نے اپنی زندگی کے قیمتی شب وروز کے سولہ برس انگریز کی جیل میں چکی پستے ہوئے گزار ے۔
ایک مرتبہ آپ سے کسی نے سوال پوچھا کہ شاہ جی زندگی کیسی گزری فرمایا آدھی جیل میں گزر گئی آدھی ریل میں گزر گئی کیونکہ جب آپ جیل سے رہا ہوتے تو بذریعہ ریل آپ دفاع ختم نبوت کے جلسہ جلوس میں روانہ ہو جاتے‘ وہاں سے پھرگرفتارہوکر جیل کی سلاخوں میں پابند سلاسل کیاجاتا‘ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اللہ نے آپ کو جرآت وبہادری‘ شجاعت و جواں مردی‘استقامت مجاہد ختم‘نبوت حق گوعالم اسیرناموس رسالت جیسی صفات سے نوازاتھا۔آپ کی حق گوئی اور پھر اس پر استقامت انگریز کوسخت نا پسند تھی آپ کے جلسہ میں خطاب کے وقت سامعین پرایسی رقعت طاری ہوتی کہ ساری ساری رات آپ کا خطاب سن نے کے لئے لوگوں کاہجوم بغیر کسی جنبش کے قائم رہتا۔ آپ جب قرآن مجید اپنے مخصوص انداز میں پڑھتے توناصرف مسلمان بلکہ ہندو اورسکھ بھی آپ کا قرآن سننے پہنچ جاتے۔ آپ لاجواب خطیب بے مثال قاری قرآن عظیم مبلغ مجاہد واسیر ختم نبوت کیساتھ ساتھ ایک سیاسی راہنما بھی تھے۔ آپکی پیدائش 1891ء میں انڈیاکے شہر پٹنہ میں ہوئی آپکا آبائی وطن گجرات پنجاب ہے آپکے والد محترم سید مولاناضیاء الدین نے سلسلہ دعوت وتبلیغ کی وجہ سے پٹنہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت حسین ابن علی رض سے جاملتاہے آپ کے والدین دونوں سید خاندان سے ہیں ابھی آپ کی عمر فقط چاربرس ہی تھی کہ والدہ کاسایہ آپ کے سر سے اٹھ گیاآپ کی پرورش آپ کے والدنے کی۔ قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرنے کہ بعد ابتدائی کتب کی تعلیم آپ نے اپنے
ناناسے حاصل کی تفسیر قرآن مجید مولانا نور احمد سے پڑھی اصول فقہ مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی سے سیکھی شاہ صاحب بچپن سے ہی سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے رہے۔ آپ کی سیاسی زندگی کی ابتداء اس وقت ہوئی جب آپ نے 1918ء میں کانگریس اور مسلم لیگ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی۔
آپ نے جس میدان میں بھی قدم رکھا اس میں کامیابی وکامرانی حاصل کرتے گئے۔ آپ نے خطابت میں ایسالوہا منوایاکہ ہرشخص آپ کوداد دینے پرمجبورتھا۔آپ کا خطاب شروع ہو نے سے قبل ہی جلسہ گاہ میں تل دھرنے کو جگہ ناملتی آپ تلاوت قرآن پاک کی دل سوز آواز سے شروع کرتے تو مسلمانوں کے علاؤہ دیگرمذاہب کے لوگ بھی سننے کیلئے بے تاب رہتے۔ آپ کاخطاب شروع ہوتاتوگویا مجمع پرسکتہ طاری ہو جاتا بعض اوقات پوری رات شاہ جی خطاب فرماتے ایک طرف شاہ جی کا خطاب اختتام پذیر ہوتا دوسری طرف مؤذن اللہ اکبر کی صدا بلندکرتا۔ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ
کی تقریر سے متاثر ہوکر غازی علم دین شہید نے گستاخ رسول کا سر قلم کیاتھا۔آپ روحانی سلسلہ میں حضرت سید پیر مہر علی شاہ رح آف گولڑہ شریف کے ہاتھ پر بیعت کی‘ ان کی وفات کے بعد آپ نے شاہ عبد الرحیم رائے پوری رح کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کے سامنے جب کوئی فضول رسومات پر عمل کرتا توآپ سخت برہم ہوتے آپ نے شرک وبدعات سماجی برائیوں اور رسومات کے خلاف بھی بھرپور آواز بلند کی۔ آپ نے انگریز اور قادیانیت کو ناکوں چنے چبوائے قادیانیت کو ہر میدان میں شکست فاش دی آپ دن رات ان کی سرکوبی میں مصروف رہتے۔شاہ صاحب کے سامنے جب قادیانیت کا تذکرہ آتا تو آپ کاانداز بیاں بدل جاتا آپ کی آواز میں گرج اور تقریر میں گویاشعلے برستے نظرآتے۔ آپ کی زبان سے جب قرآن مجید کی تلاوت جاری ہوتی تو ہرآنکھ اشکبار ہو جاتی آپ کی تقریر لوگوں کے دل ودماغ میں گہرے نقوش چھوڑ جاتی آپ اپنے خطاب میں گزری ہوئی ہستیوں کا حوالہ اس انداز سے دیتے سامعین کولگتاجیسے وہ سامنے موجود ہیں اپنے دور کے بلند پایہ خطیب ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے سیاسی وسماجی اور دینی شخصیات آپ کے سامنے حاضر ہوتے لیکن باوجود اس کے آپ کی سادگی اور درویشانہ زندگی میں کوئی فرق ناآیاآپ اپنے مؤقف پر نا توپیچھے ہٹے اور ناہی آپ کے مؤقف میں نرمی آئی۔ ایک مرتبہ رام پور جیل میں آپ کو چکی پیسنے کے لئے دی گئی تو شاہ صاحب نے وضو کیا اور چکی پستے پستے ساتھ سورہ یسین کی تلاوت بلند آوازمیں شروع کردی تو جیل سپرنٹینڈنٹ نے آکر عرض کی کہ شاہ جی بس کردیں ورنہ میرا کلیجہ پھٹ جائے گا بلآخر زندگی کے شب وروز دین اسلام کیلئے وقف کرنے والے جرات مندانہ اپنے مؤقف پر قائم رہنے والے دین اسلام کی سربلندی کیلئے کوشش کرنے والے دن رات قادیانیت کی سرکوبی والے اپنے ناناکی عزت وناموس پر پہرہ دینے والے مرد مجاہد اسیرناموس رسالت اور سادہ زندگی گزارنے والے سید خاندان کے چشم وچراغ بلآخر 21 اگست 1961 کو موت کا ذائقہ چکھتے ہوئے رب کے حضور پیش ہوگئے‘ آپ کو آہوں و سسکیوں میں ملتان کی سرزمین پر سپرد خاک کردیاگیا یوں یہ اسلام کا روشن چمکتا ستارہ ہمیشہ کے لئے دنیا سے غروب ہوگیا۔
ایس ایچ او تھانہ سول لائنز کی کاروائی،چوری کی متعدد وارداتوں میں ملوث ہیر گینگ…
کراچی(حذیفہ اشرف سے)عالمی کیبل کنسورشیم کی جانب سے سمندر میں موجود فائبر آپٹک کیبل کی…
لاہور (حذیفہ اشرف سے)تحریکِ لبیک پاکستان (TLP) نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے…
اسلام آباد(اویس الحق سے)فلسطین کے صدر محمود عباس نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی…
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز الیکٹرو بس سروس، سڑکوں کی مرمت، خصوصی صفائی مہم اور…
اٹک میں سالانہ بڑی گیارہویں شریف کے موقع پر آستانہ عالیہ خوشبوئے مدینہ نقیبیہ میں…