149

ماہِ صیام اور خود احتسابی/مشتاق علی

تخلیق جن و انس کا واحد مقصد اس ذاتِ یکتا و کریم کی اطاعت اور بندگی مقصود تھی ۔ چنانچہ اس فریضے کی انجام دہی کے لئے اللہ نے انبیاء ، اولیاء کرام، ولی اللہ اور آسمانی کتب کے نزول کی وساطت سے انسان کی رہنمائی فرمائی اور اسے اپنی اطاعت و بندگی کے اطوار سکھلائے۔ اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ” روزہ” ایک اہم رُکن ہے یہ تقوی، تزکیہ نفس اور مشکل ترین حالات میں معمولاتِ زندگی نبھانے کا ایک Refresher Courseہے جس کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے اس کا دورانیہ کبھی 29 اور کبھی 30 دن ہوتا ہے۔ یہ ماہِ مبارک اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں میں ایک خصوصی مقام رکھتا ہے کیونکہ اس کیدوران تمام عبادات کا اجر و ثواب عام ایام سے 70 گنا زیادہے ۔ یہی وہ ماہِ مبارک ہے جس میں قرآن پاک کا نزول، لیلۃ القدر اور ہمیں آزادی کا تحفہ عطا کیا گیا۔وہ ذاتِ گرامی اتنی مہربان ہے کہ وہ انسان کو اپنی بخشش کا سامان کرنے کے لئے ایسے مواقع فراہم کرتی ہے البتہ یہ خود انسان پر منحصر ہے کہ وہ ایسے مواقع سے کتنا فائدہ اٹھاتا ہے۔ روزہ کی اہمیت اس سے واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ ” روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر بھی میں ہی دوں گا” چونکہ یہ تمام عبادات میں سے منفر د عبادت ہے کہ اس کا علم صرف متعلقہ فرد یا پھر اللہ کو ہی ہوتا ہے اس ماہ سے مستفید ہونے کے لئے کوئی اللہ کے حکم کی تعمیل میں پورا دن بھوک اور پیاس برداشت کرتا رہا اور رات کو آرام و سکون کو ترک کر کے عبادات میں مشغول رہا اور اپنی آخروی زندگی کی کامیابی کے لئے سعی کرتا رہا اور اس کے بر عکس کوئی اللہ کے حکم کے خلاف وزری کرتے ہوئے حسبِ معمول کھاتا پیتا رہاگویا اپنی کامیابی کا موقع خود ضائع کرتا رہا۔ کوئی تاجر یا دوکاندار پورا ماہ جی بھر کے گراں فروشی کر کے ناجائز منافع خوری کرتا رہا وقتی طور پر بہت خوش بھی ہوا مگر اس کے انجام سے قطعی بے خبر رہا دنیا کے مہذب معاشرے ایسے موقعوں پر قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کر دیتے ہیں مگرہم اس کے اُلٹ چلتے ہیں۔ ماہِ صیام کے آغاز سے پیشتر جو چیز 50/- روپے میں دستیاب تھی۔ اِس ماہ کے دوران وہ کم ازکم 80/- روپے میں ملتی رہی۔ ٹماٹر عید کے تین دن پہلے چالیس روپے کلو جبکہ عید کے ایام میں ایک سو چالیس روپے کلو بکتا رہا۔ یہ منافع خوری اور انتظامیہ کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کی غرض سے حکومت نے رمضان پیکج اور سستے بازاروں کا انعقاد کیا ۔ قیمتوں میں تھوڑا بہت فرق ضرور دیکھنے کو ملا مگر کوالٹی کے لحاظ سے بعض اشیاء انتہائی غیر معیاری تھیں۔ ان انتظامات کی بجائے اگر گراں فروشی کا سدِباب کیا جاتا تو وہ ایک دیرپا قدم ہوتا جس سے عوام کو آئندہ بھی فائدہ پہنچتا۔ یہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور مجسٹریٹ آخر کس مرض کی دوا ہیں۔جب میڈیا کے ذریعے روز مرّہ استعمال کی اشیاء میں بے ہنگم اضافے کی خبریں تو اتر سے آنا شروع ہوئیں تو تب جا کرانتظامیہ حرکت میں آئی اور چند ایک منافع خوروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔ جیل سے واپس آکر انہوں نے کسر پوری کر لی۔ چونکہ انہیں معلوم تھا کہ اب انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں یہ کارروائی عوام کی محض وقتی تسلی اور حکومتی کارکردگی کی تشہیر تھی۔ عید پر واپڈا کی کارکردگی بہتر رہی اور بغیر کسی تعطل کے بجلی کی فراہمی جاری رہی ۔ البتہ رمضان کے دوران عوام کو خوب ستایا گیا۔ بغیر شیڈول کے لوڈشیڈنگ بالخصوص نمازِ تراویح کے دوران بجلی کا غائب ہوجانا ایک عذاب سے کم نہ تھا۔اس بار ایک اور محکمے نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور وہ تھا “پاکستان پوسٹ” مرض پیری میں مبتلا پنشنرز پنشن لینے کی غرض سے صبح متعلقہ ڈاک خانے کے باہر قطار میں لگ جاتے ۔ پانچ گھنٹے بعد جب باری آتی تو بتایا جاتا کہ کیش ختم ہو گئی ہے۔عید گزر جانے کے بعد آج تک بیشتر پنشنر کو پنشن ادا نہیں کی گئی۔ پنشن کی روزانہ کی بنیاد پر ممکنہ ادائیگی کا تخمینہ اور کیش کا بندوبست کرنا کس کی ذمہ داری ہے پوسٹ ماسٹر کی یا پنشنر کی؟۔یہ 29 ایام کے دورانیے کا کورس اب اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ اس میں انفرادی ا ور محکمانہ کارکردگی کے لحاظ سے کون کامیاب رہا اور کون ناکام ہوا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن ہم بھی اپنے اپنے حل کر دہ پیپرز کے معیار سے بخوبی واقف ہیں ۔ چونکہ ذاتی عمل اور کارکردگی ایسا پیمانہ ہے جو کامیابی یا ناکامی کی نشان دہی کر دیتا ہے۔ وہ ذات قادرِ مطلق ہے جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے گرفت میں لے لے ۔ آئیے ہم سب مل کر اس ماہ مبارک کے دوران سرزد کوتاہیوں کا از خود احتساب کریں اوران پر قابو پا کر اگلے امتحان کی تیاری ابھی سے شروع کردیں۔ کیوں کہ کسے معلوم کہ اس چلتی سانس اور مٹی کی بنی مورتی کا رشتہ کب ٹوٹ جائے اور ہم سے عمل کی ہر قوت ہمیشہ کے لئے چھن جائے۔ لہذا بقول شاعر:
ہے آج رُح ہوا کا موافق تو چل نکل
کل کی کسے خبر کہ کدھر کی ہوا چلے{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں