ماں

عبدالجبار چوہدری
تمام ماؤں کی خوہش ہوتی ہے کہ اس کے بیٹے ہر وقت اس کی نظروں کے سامنے رہیں لیکن ’’بیٹے ہمیشہ تو ماؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے‘‘۔ مشہور و معروف سفرنامہ لکھنے والی شخصیت مستنصر حسین تارڑ کا ایک سفر نامہ پڑھ رہا تھا تو اس جملے نے مجھے چونکا دیا یہ ایک حقیقت ہے کہ بیٹے کبھی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر ماؤں سے دور رہنے پر مجبور ہوتے ہیں کبھی روزگار کے سلسلہ میں کئی کئی سالوں تک ماؤں سے دور رہنا پڑتا ہے سرحدوں کی حفاظت کے لیے فوج میں بھرتی ہونیوالے جوان یا افسر‘دوسرے صوبے میں تعینات ہونے والے سرکاری ملازم ہوں یا ملک سے باہر فرائض کی انجام دہی درکار ہو ماؤں سے دور تو رہنا پڑتا ہے مگریہ عارضی جدائی ہوتی ہے انتظار اور آس تو ہوتی ہے کہ ملاقات ہو گی بیٹوں کو ہوٹلوں کے باسی کھانے کھانا پڑتے ہیں ناقص رہائشوں میں رہنا پڑتا ہے لوگوں کی جلی کٹی سننا پڑتی ہیں پردیس میں تو بھکاریوں سے بھی ڈر کر رہنا پڑتا ہے بیٹے جب کئی دن گھر سے دور رہتے ہیں تو اس دوران مائیں نجانے کتنے وسوسے پالتی ہیں کتنے بھیانک خواب دیکھتی ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ ماں کی نظر ہر وقت دروازے پر رہتی ہے کہ سو رہا ہو گا،کام کر رہا ہو گا اور اب کھا نا کھا رہا ہو گا ایک ہو یا کئی ہر ایک بیٹے کے لیے ماں یکساں جذبات رکھتی ہے ماں کی تڑپ ایک جیسی ہوتی ہے ماں کے لیے بیٹے ایک امید ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہی مائیں بیٹوں کی کئی کئی سالوں کی جدائی برداشت کرتی ہیں مائیں اپنے بیٹوں کو دیکھنے کی خاطر ہی اپنی اور بیٹو ں کی زندگی کی دعائیں کرتی ہیں جب بیٹوں کے ملنے کی آس ٹوٹتی ہے تو مائیں پتھر کی مورتی کی طرح بے جان ہوجا تی ہیں دنیا کی آسائشوں سے بے رغبتی اختیار کر لیتی ہیں مائیں تو بیٹوں کو یاد رکھتی ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ بیٹے کہاں ہمیشہ ماؤں کے پاس رہتے ہیں مائیں بیٹوں کے جلد جوان ہونے کا انتظار کرتی بھی اس لیے کرتی ہیں کہ وہ اس کی خوشیاں اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں شادی کے بعد بھی بعض بیٹے ماؤں سے دور ہو جاتے ہیں بہت سی مائیں خطرناک بیماری کا شکار ہوتی ہیں کہ اس سنگ میل کے قریب پہنچ کر بیٹوں کی خوشیاں نہیں دیکھ سکتی ہیں بیٹے زندگی کی دوڑ میں کہا ں سے کہاں نکل جاتے ہیں مگر مائیں تو ان کی منتظر رہتی ہیں بارہا مرتبہ ایسی جگہوں سے گزر ہوا جہاں اکیلے کٹیان میں بوڑھی ماں زندگی کے ایام گزار رہی ہوتی ہے خلیفہ دوم حضرت عمرؓفاروق ایک بوڑھی ماں کا صبح سویرے جا کر ان کے لیے پانی بھرنا، گھر کی صفائی جھاڑو دے کر آجاتے تھے کچھ عرصہ انھیں محسوس ہوا کہ کوئی ان سے پہلے آکر ان کی بوڑھی ماں کے کام کر جاتا ہے جب غور سے دیکھا تو وہ خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ صدیق تھے ہمارے اردگرد بھی بہت سی بوڑھی مائیں رہ رہی ہیں ان بوڑھی ماؤں کے کام کاج آج کا نوجوان کر سکتا ہے ان سے کچھ دیر باتیں کر کے ان کے بیٹوں کا غم محو کر سکتا ہے میرے پڑوس کی ایک ماں جن کا بیٹا میرے چھوٹے بھائی کا ہم عمر تھا وہ بچپن میں فوت ہو گیا آج تک وہ بوڑھی ماں میرے بھائی کو ملنے اور دیکھنے آتی ہیں اور اپنا غم اور دکھ ساتی ہیں بیٹوں کے مقدر میں اکثر پردیس ہوتا ہے باسی روٹی،کھارے پانی ،پرانے بستر اور سفر کی صعوبتیں زیادہ تر مرد ہی جھیلتے ہیں گھرو الوں کے آسائش ،آرام اور ان کی روز مرہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مرد روزگار کے لیے گھروں سے دور رہتے ہیں اور وہ سب کے سب ایک ماں کے بیٹے ہوتے ہیں ان ماؤں کے بیٹے جب تک وہ ماں کی زیر کفالت ہوتے ہیں تو ان کو کانٹا چبھے توا س کی ٹیسیں ماں کے ہونٹوں سے نکلتی ہے جبکہ کئی بیٹوں کے ہاتھ پاؤں تک کٹ جاتے ہیں تو سوائے طفل تسلی کے دیگر رشتوں سے اس سے کچھ نہیں ملتا ماں کے سرہانے کھڑا ہونے والی اولاد خوش قسمت ہوتی ہے ماں کے بچھڑ جانے کا دکھ بھلا کیسے بھلایا جاسکتا ہے اور ماں اولاد کے ساتھ گزرے ایام کیوں کر بھول سکتی ہے ایک بات اکثر کی جاتی ہے کہ ایک ماں کو چند بچوں میں سے سب سے خوبصورت بچے کا انتخاب کرنا تھا تو وہ ماں ہر دفعہ اپنے حقیقی بیٹے کو ہی منتخب کرتی کیوں کہ ماں کے نزدیک اس کے اپنے بیٹے کے علاوہ کوئی دوسرا خوبصورت ،قابل اور عقل مند نہیں ہو سکتا لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ ’’بیٹے ہمیشہ ماؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے ‘‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں