ماں/عبدالجبار چوہدری

ماں جب مر جاتی ہے تو جو چھوٹے بچے اور بچیاں رہ جاتے ہیں چاہے ان کی عمر ایک دن ہو یا کئی سال ان کی دنیا تاریک ہوجاتی ہے امید ٹوٹ جاتی ہے ،سہاراختم ہو جاتا ہے ۔دکھوں کا پہاڑ گر پڑتا ہے ۔لاڈ ،چونچلے،روٹھنا،ضد ہر ایک کی قربانی شروع ہو جاتی ہے

۔چپکے چپکے رونا پڑتا ہے ،قہقہے ماند پڑ جاتے ہیں لب خشک رہتے ہیں الغرض انجانے خوف کے ڈیرے مستقل پڑ جاتے ہیں ۔شوخ رنگ بھاتے نہیں ،خوشی کے موقع بھی رلاتے ہیں ،ہاتھوں پر مہندی لگے تب بھی رونا آتا ہے ماتھے پہ شادی کا سہرا

سجے پھر بھی ہوک اٹھتی ہے ۔
بچپن میں ماں کا چلے جانا،اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ماں کی آغوش کی گرمی ساری زندگی نہیں ملتی،ماں کے میلے کپڑوں؂؂؂سے آنسو پونچھنے کی ادا ہمیشہ یاد آتی ہے غربت کے افسانے بھول جاتے ہیں ،ننگے پاؤں چلنا بھول جاتا ہے پھٹے کپڑوں میں گزرا بچپن بھی محو ہو جاتا ہے

مگر ماں کے ان محرومیوں پر کہے گئے الفاظ کبھی نہیں بھولتے ،کسی خواہش کے اظہار میں جو ہچکچاہٹ ماں کے نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے وہ ساری زندگی دور نہیں ہوتی ایک ماں کے فوت ہونے پر تعزیت کے لیے گیا چھوٹی چھوٹی بچیاں جن کی عمریں بالترتیب سات اور پانچ سال ہیں جب ان کے والد نے یہ بتایا کہ آج میں کمرے سے رونے کی آواز سن کر وہاں گیا تو میری بچی دروازے کی اوٹ میں چھپ کر سسکیاں لے لے کر رورہی تھی یہ کیفیت دو دن پہلے چلی جانیوالی ماں کی بچی کی تھی مزید انہوں نے بتایا کہ آج دعائے قل کرنی ہے میں نے کوشش کی کہ بچیاں سکول چلی جائیں مگر بچیوں نے جواب دیا کہ آج ہماری ماں کی دعا ہے۔ہم سکول نہیں جائیں گی ان باتوں کو سن کر میرا کلیجہ منہ کو آگیا ،ضبط کے بندھن ٹوٹتے بچے،آنسو کی لڑیاں بڑی مشکل سے رکیں اور ایک درد کو دفن کر کے بڑی مشکل سے میں واپس آیا۔

ماں کے چلے جانے کے بعد بچے کھانا کھاتے ہیں ۔کپڑے پہنتے ہیں سکول جاتے ہیں،اعلی نمبروں میں پاس ہوتے ہیں ،افسر بنتے ہیں ،مشہور ہوتے ہیں ۔زندگی کے ہر گوشہ سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں لیکن یہ لمحات صدیاں لگتے ہیں ،جب وہ کسی کو دیکھتا ہے کہ ماں نے اس سے بوسہ دیا ہے ،ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھایا ہے ،ماں کی خواہش کی خاطر وہ یہ تعلیم ڈگری حاصل کر رہا ہے تو اس وقت پسیج کر رہ جاتا ہے کہ کاش آج یہ سب میری ماں بھی ریکھ رہی ہوتی۔
کسی بھی کامیاب شخص سے اس کی سب سے بڑی دولت کیا ہے کہ بارے میں پوچھا جائے تو وہ اپنی ماں کا نام لے گا کہ ماں میری زندگی کی سب سے بڑی دولت ہے ۔

ماں کی خوشبو ساری زندگی گھر میں رہتی ہے ۔آنگن کبھی اس پھول سے خالی نہیں رہتا ہے ماں کانام اولاد روشن رکھتی ہے اپنے اعلی اخلاق ،اطوار اور اپنی شخصیت سے ماں کو خراج تحسین پیش کر سکتی ہے ۔اجنبی جب ایک شخص کے اچھے رویہ کو سراہتا ہے تو وہ اس کی ماں کی تربیت کی تعریف کر رہا ہوتاہے کہ اس کو آداب سکھانے میں اس کی ماں کا ہی کردار ہے ۔آوارگی،بد تمیزی،بد تہذیبی اور بے ہنگم حرکات کا خمیازہ بھی بے چاری ماؤں کو ہی بھگتنا پرتا ہے کہ یہ کن جاہل کنواروں کی اولاد ہے۔

ماں کی کمی اولاد ہر دم محسوس کرتی ہے ماں کی اداؤں ،یادوں کی کسک اسے تما م عمر بے چین رکھتی ہے ۔اچھے اعمال اور افعال کو اختیار کر کے اولاد ماں کی یاد کو چار چاند لگا سکتی ہے ۔خصوصا ایسے لوگ جن کی مائیں بچپن میں داغ مفارقت دے جاتی ہیں ایسی اولادیں ضرور جوان ہوتی ہیں ۔اچھے عمل،بہترین اخلاق اور ایماندارانہ جذبہ سے ہی ماؤں کو یاد کراسکتے ہیں ہمارے ملک میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ ٹرسٹ ،ویلفیئر سو سائٹی بنانے کے لیے ماں کے نام کا ہی انتخاب پہلی ترجیح ہوتی ہے

ملک کا سب سے بڑا کینسر کا ہسپتال ایک ماں کے نام پر ہی ہے جس کے بانی معروف کرکٹر اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ہیں اور اس کا نام اپنی مرحومہ ماں کے نام پر شوکت خانم میموریل ہسپتال رکھا ۔آنکھوں کے علاج کے لیے فی سبیل اللہ کام کرنیوالے ،ہسپتال،کنواں،راستہ بنانیوالوں کی ترجیح بھی یہی ہوتی ہے کہ اس سے ان کی ماں کا نام روشن ہو ۔تمام ثواب اور نیکی کے کاموں کا رخ انسان اپنے ماں باپ کی طرف ہی کرتا ہے کہ ان کا نام روشن ہو جن کی بدولت وہ اس دنیا میں آئے ،کام کیا،نام کمایااور اس طرح تاقیامت یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور ماں جیسی ہستی کو خراج تحسین پیش کیا جاتا رہتا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں