ماں بولی کا عاشق ۔۔۔۔۔۔۔۔فیصل عرفان

امتیاز حسین کاظمی /ہمہ جہت صفات کے مالک فیصل عرفان کی تصنیف ”پوٹھوہاری اکھانڑ تے محاورے“ پوٹھوہاری ادب میں ایک منفرد اور خوبصورت اضافہ ہے۔ سینکڑوں پوٹھوہاری ضرب الامثال اور محاوروں سے مزین اس خوبصورت تصنیف کے منظر عام پر آتے ہی جو بے پناہ پذیرائی ملی ہے وہ تحریر کے معیاری ہونے کی دلیل ہے۔معروف صحافی رؤف کلاسرہ، نوائے وقت کے چیف رپورٹر نواز رضا اورممتاز کالم نگار ڈاکٹر زاہد حسین چغتائی جیسی نابغہ روزگار شخصیات نے اس عمدہ تصنیف پر مضامین لکھ کر نہ صرف پیشہ وارانہ دیانتداری کا حق ادا کیا ہے بلکہ ایک لکھاری کی محققانہ صلاحیتوں کوتسلیم کر کے بہترین انداز میں حوصلہ افزائی بھی کی۔ فیصل عرفان اس عمدہ کاوش پر تحسین کے مستحق ہونے کے ساتھ ساتھ خطہ پوٹھوہار کے ادبی حلقوں کے لیے اعزاز و تفاخر کا باعث بھی ہیں۔ اپنی مٹی۔۔۔اور اپنی۔۔ماں بولی سے محبت۔۔۔ سادہ طبعیت، شفاف اورپُرخلوص لوگوں کا ہمیشہ شیوہ رہا ہے۔ایسی شخصیات اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کامیابی کے مراحل طے کرنے کے باوجود عاجزی و انکساری کی چادر میں لپٹے رہتے ہیں۔ فیصل عرفان کا تعلق بھی اسی منکسر المزاج قبیلے سے ہے۔وہ محنت کے بل بوتے پر اپنا مقام حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔وہ شارٹ کٹ کی بجائے جہد مسلسل کے قائل ہیں۔برادرم فیصل عرفان سے پہلا تعارف صحافتی حوالے سے ہوا۔ سرسری ملاقات میں ہی انہوں نے اپنی شخصیت کا گرویدہ کرلیا۔رسمی دعا سلام،پہلے دوستی اور پھر برادرانہ تعلقات کا رنگ اختیار کر گئی۔یاروں کے یار فیصل عرفان کا شعبہ صحافت کے ساتھ ساتھ علم و ادب سے بھی گہرا تعلق ہے اور شاہد یہی وجہ ہے کہ ”روایتی صحافت اورصحافیوں“ سے وہ کوسوں دور ہیں۔وہ معاشرے کے پسماندہ طبقے کے لیے بھی درد رکھتے ہیں اور فلاحی کاموں میں سرگرم رہتے ہیں۔وہ بہترین قلم کار بھی ہیں اور ان کے مضامین ملک کے بڑے اخبارات اور جریدوں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ فیصل عرفان کی کتاب ”پوٹھوہاری اکھانڑ تے محاورے“ ان کے ادبی و علمی ذوق کا تسلسل ہے۔کسی بھی علاقے کے کھان اور محاورے وہاں کی تہذیب و ثقافت کا علمی ورثہ ہوتے ہیں۔ جن کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ پوٹھوہاری علم ودانش کے اس قیمتی خزانے کو فیصل عرفان نے کتاب کی شکل میں محفوظ کر کے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ اگر یہ جستجو اب نہ کی جاتی تو شاید اگلی نسل کھان اور محاوروں کی ابجد سے بھی بے خبر رہتی اور رفتہ رفتہ علم و دانش کا یہ علاقائی ورثہ تاریخ کے اوراق سے بھی اوجھل ہوجاتا۔فیصل عرفان نے اسے کتاب کی شکل دے کر دائمی زندگی عطا کر دی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی فیصل عرفان کے قلم میں مزید تاثیر عطا کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں