سمیر حسن ایڈووکیٹ
حالیہ دنوں میں سی سی ڈی (کرائم کنٹرول ڈپارٹمنٹ) کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بن رہی ہیں۔ ان کارروائیوں کے دو نمایاں پہلو ہیں: ایک طرف تو جرائم پیشہ عناصر میں شدید خوف کی لہر دوڑ گئی ہے، جو کہ ایک قسم کا مثبت اثر ہے کیونکہ یہ معاشرے میں جرائم کی روک تھام کے لیے ایک مؤثر ڈیٹرنس پیدا کر رہا ہے۔ دوسری جانب، عوام میں ایک گہری بےچینی اور خوف پایا جاتا ہے، خصوصاً اس وقت جب ماورائے عدالت قتل جیسی سنگین کارروائیاں بغیر کسی شفاف طریقہ کار اور قانونی تقاضوں کے کی جا رہی ہوں۔
ان اقدامات پر گہری نظرثانی اور سخت مؤثر چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت ہے، کیونکہ ان کارروائیوں میں انسانی حقوق، آئین پاکستان، اور عدالتی نظام کی خلاف ورزیوں کے سنگین پہلو شامل ہیں۔
سی سی ڈی یا کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کو اختیار حاصل ہے کہ وہ جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری کرے، ان سے تفتیش کرے اور قانون کے مطابق عدالت میں پیش کرے۔ لیکن محض ایف آئی آر میں نامزد ہونا، یا کسی انٹیلیجنس رپورٹ میں اشتہاری ہونا، یہ اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ کسی فرد کو موقع دیے بغیر ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ اس رجحان کو اگر فوری طور پر نہ روکا گیا تو آنے والے وقت میں یہی اختیارات سیاسی دشمنی، ذاتی رنجش اور مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیے جائیں گے، جس سے معاشرہ خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جائے گا۔
ہم مانتے ہیں کہ پاکستان میں سزا کا تناسب کم ہے، پرازیکیوشن کا نظام کمزور ہے اور عدالتوں پر بوجھ بھی زیادہ ہے، لیکن یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ عدلیہ ہمیشہ شواہد اور قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہے۔ اگر پولیس ایمانداری سے تفتیش کرے اور پرازیکیوشن دیانتداری سے اپنا مقدمہ پیش کرے تو سزا یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ حل یہ ہے کہ قانون پر عمل درآمد کو مضبوط بنایا جائے، نہ کہ قانون ہی کو نظر انداز کر دیا جائے۔کیونکہ اگر صرف چھوٹے جرائم پیشہ افراد کو نشانہ بنایا جائے گا اور بڑے مگر مچھ آزاد گھومتے رہیں گے، تو عوام اس کارروائی کو جانبداری اور انتقامی سیاست ہی تصور کرے گی
تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ سی سی ڈی یا دیگر فورسز کے اہلکار کسی سب انسپکٹر یا ایس ایچ او کی رپورٹ کی بنیاد پر، ایک ایس پی سے زبانی منظوری لے کر کسی شہری کو قتل کرنے کا جواز لے لیتے ہیں۔اور ہر ایف آئی آر میں وہی گھسی پٹی کہانی کہ مقتول اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا۔۔ یہ طرزِ عمل قانون کی روح کے خلاف ہے اور یہ غیر مہذب عمل، نہ صرف افسوسناک بلکہ قانون کی توہین ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جرائم پر قابو پانا پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے،اور بظاہر اس کام سے عوام کو اطمینان بھی ہے۔ لیکن یہ کام قانون، شفافیت، غیر جانبداری اور احتساب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہونا چاہیے۔کیونکہ اگر اس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ رکھا گیا تو مستقبل میں یہ سیاسی حریف اور دشمنوں کو قتل کرنے والا ایک ادارہ بن جائیگا ۔
ایک مخصوص تھانے کو ٹاسک دے کر، چند مخصوص افراد کو نشانہ بنانا، جبکہ دہشتگردوں سیریل کلرز اور منظم جرائم پیشہ گروہوں کو کھلی چھوٹ دینا، ایک دہرا معیار ہے جو عوامی اعتماد کو شدید مجروح کر رہا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پنجاب پولیس جو کہ پہلے ہی اچھی خاصی بدنام سمجھی جاتی ہے اگر بے لگام ہوئی تو نہ صرف رشوت، سفارش اور اقربا پروری کو فروغ ملے گا بلکہ ملزمان لاکھوں روپے دے کر اپنی جان بخشی خریدیں گے کہ انہیں پولیس مقابلے میں نہ مارا جائے۔ اس سے قانون کی بالا دستی کا تصور مکمل طور پر دفن ہو جائے گا۔آج عوام اس لیے خوش ہے کہ انہیں “فوری انصاف” مل رہا ہے، لیکن کل کو یہی عمل ان کے اپنے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ ماورائے عدالت قتل کا مطلب ہے کہ ریاست نے خود قانون کی نفی کر دی ہے۔
یہ ایک خطرناک مثال ہے، جو اگر آج نہ روکی گئی تو کل سب کچھ ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ ہم حکومتِ وقت، اعلیٰ عدلیہ، وزارتِ داخلہ اور انٹیلیجنس اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ماورائے عدالت قتل کی مکمل، شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں۔ ہر پولیس مقابلے کی ایک مکمل رپورٹ پبلش کی جائے،ہر تھانے میں قانون کی عملداری اور ملزمان کے خلاف خوف اور ڈیٹرنس پیدا کرنے کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات لائی جائیں
۔اس کوئی دوسری رائے نہیں کہ جرائم پیشہ افراد کو سزا ملنی چاہیے، لیکن سزا کا اختیار صرف عدالتوں کو ہے، نہ کہ کلاشنکوف کے ٹرگر پر انگلی رکھے کسی ایس ایچ او یا سی سی ڈی اہلکار کو۔