وطن عزیز میں قانون موجود ضرور ہے لیکن اس پر عمل درآمد ندارد اگر صحیح معنوں پر قانون کی عملداری ہو اور یقین کریں ہمارا وطن جنت سے کم نہیں لیکن شومئی قسمت یہ نظارہ شائید آنے والی نسلیں ہی دیکھ سکیں ملک میں منشیات کے بڑھتے رحجان نے تباہی کی وہ بنیاد رکھ چھوڑی ہے کہ اللہ کی امان منشیات کاکارستانی کا ایک واقعہ مندرہ کی حدود میں ہوا جس نے ہر زی شعور کو لرزا کررکھ دیا کم عمر بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات میں نہ صرف سنگین نوعیت کے اضافہ ہوچکا ہے،
بلکہ اس قبیع فعل کا ارتکاب کرنے والے درندے اپنا جرم چھپانے کے لیے بچوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کررہے گزشتہ دنوں تھانہ مندرہ کے علاقے میں پیش آیا جہاں پھول جیسی معصوم بچی کو سفاک سگے ماموں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کرڈالایہ واقعی کرسچن کمیونٹی میں پیش آیا مندرہ پانچ مرلہ سکیم کی رہائشی 07 سالہ شفق گھر سے باہر نکلی تو کافی دیر واپس نہ آئی تو گھر والوں کو تشویش ہوئی پھر اسکی تلاش شروع ہوئی لیکن شفق ملی نہ اسے ملنا تھا کافی دیر تک تلاش بسیار بعد قریب ہی زیر تعمیر پلازہ سے ننھی پری کی خون آلود لاش ملی تو گھر والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی پولیس کی ابتدائی تحقیقات اور لاش کی حالت سے ایسا لگ رہا تھا
کہ درندہ صفت ملزم نے بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور جنسی ہوس کے بعد قتل کر ڈالا،واقعہ کی اطلاع اور سنگینی پر سٹی پولیس آفیسر سید خالد محمود ہمدانی نے نوٹس لیتے ہوئے راولپنڈی پولیس کی سپیشل ٹیم تشکیل دے کر گھناؤنے فعل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک یاSSPانویسٹیگیشن راولپنڈی صبا ستار نے بھی جائے وقوعہ کا جائزہ لیا، ورثاء سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں پولیس تحقیقات کی پیش رفت سے آگاہ کرتے ہوئے ان تسلی اور حوصلہ دیاکہ پولیس ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کریگی CPO راولپنڈی کی جانب سے تشکیل کردہ ٹیم نے ہیومین انٹیلیجنس سمیت جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع سے ننھی پری کے قتل و زیادتی میں ملوث ملزم کو 24 گھنٹے کے اندر اندر گرفتار کرلیا تو ہوشرباء انکشافات سامنے آچکے تھے کہ 07 سالہ بچی شفق سے جنسی زیادتی اور اسکے قتل میں اسکا سگا ماموں نکلا، سفاک ملزم کا نام سنیل عمر 17سے اٹھارہ سال کے درمیان تھی جوباربر کا کام کرتا تھااور اسے نشے کی لت تھی وقوعہ کے روز اس نے آئس کا نشہ کررکھا تھامزید تحقیقات اور انتہائی باوثوق زرائع کے مطابق نشہ کے بعد ملزم کے چھپے حیوان سے سراٹھایا اور ایک عورت سے رابطہ کیا لیکن مزکورہ عورت اسے نہ مل سکی
تو بعدازاں اس نے جنسی جذبات کی تسکین کے لیے اس نے ایک لڑکے سے بھی غلط فعل کی کوشش کی تو وہ انکاری ہوا تاہم پولیس زرائع نے مزکورہ لڑکے کا نام صیغہ راز میں رکھا منشیات کی لت اور سفلی جذبات نے ملزم کو رشتوں لے تقدس سے آزاد کردیا تھا اور سفاک ملزم کی نظرمیں کوئی اورنظر نہ آیا تو اس نے سات سالہ ننھی پری دکان سے کھانے پینے کی چیزوں کا لالچ دے کر ساتھ لیا اور زیر تعمیر پلازے میں لے جاکر ہوس پوری کرنے کی کوشش کی تو بچی کے شور و واویلا کرنے پر سفاک ملزم پر وحشی درندے کا روپ دھار لیاجیب سے کھینچی نکال کر بچی کے گلے پر وار کیاخون لا فوارہ نکلا تو ملزم مزید وحشی ہوا اور ساتھ اینٹ اٹھا کر بچی کے سر پروار کرکے اسکو ابدی نیند سلا دیا بچی کو قتل کرنے بعد بھی ملزم نے مزید سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچی کے کپڑے اتار کر شیطانیت کی حدود کو پار کیا اور بچی سے جنسی زیادتی کی سفاکیت کا سنگین واقعہ سامنے آنے CPO راولپنڈی متحرک ہوئے سپیشل ٹیم کو حکم دیا کہ ملزم چاہے پاتال میں کیوں نہ ہو نکال کر لایا جائے اور پھر آئی ٹیم کے ان شیر جوانوں کو سلام جنہوں نے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے 24 گھنٹوں میں ملزم کو ٹریس کیا بلکہ اسے گرفتار بھی کرلیا پھر پولیس نے مزید تحقیات کے ملزم کو آلہ قتل کی برآمدگی کے لیے جب لے کر جایا جارہا تھا تو بقول پولیس ترجمان ملزمان کے ساتھیوں نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کردی جنکی فائرنگ کی زد میں آکر زیر حراست ملزم شدید زخمی ہواجو ہسپتال منتقلی کے دوران ہلاک ہو گیا تاہم پولیس ترجمان اس بات کی وضاحت جاری نہ کرسکے کہ مزکورہ ملزم کے ساتھ کون تھے کیا وہ لوگ بھی اس گھناونے کام میں ملوث تھے یا انکا ملزم سے کیا رشتہ رابطہ تھا
ملزم کیفر کردار کو پہنچ تو گیا لیکن اس نے دانستہ طور پر ایک ایسا کام کرنا چاہا کہ اگر راولپنڈی پولیس بہترین انداز میں کارروائی نہ کرتی ور ملزم گرفتار نہ ہوجاتا تو شائید پورے ملک میں ایک ہنگامہ بپا ہوجانا تھا اور دوسری طرف منشیات کی کارستانی نے ایک ہنستے بستے گھر کو اجاڑ کررکھ دیا حکمران طبقہ خدا رہا ہوش کرے یہ۔لوگو اپنی تنخواہوں اور مراعات کے لیے تو ایک پیج پر ہوجاتے ہیں عوام کے مفاد کے لیے ایک جگہ کیوں اکھٹے نہیں ہوتے منشیات فروشوں انکے سہولت کاروں کے لیے کم از کم سزائے موت کا قانون ہونا چاہیے صرف قانون کی حد تک نہیں بلکہ ایسے حرام کو لٹکایا جانا چاہیے تاکہ معاشرے میں ایسے ناسوروں کا خاتمہ۔ممکن ہوسکے بصورت دیگر سنیل جیسے درندے ہمارے ارد گرد موجود ہیں اور کئی سات سالہ ایسے حیوانوں کی حوس کا شکار بنتی رہیگی یقینا اس ظلم کا شکار ہونے والی ہر بچی بیٹی کے زمہ دار ہمارے حکمران ہونگے جو قانون جیسا مکڑی کا جالا بناتے رہیں گے لیکن اسکو مضبوط نہ بنا کر کہیں مجرموں کے سہولت کار بنتے رہینگے