مافیا 297

مافیا

مفاد کے تحت اتحاد کرنا بہت اچھا ہے مگر جب یہی اتحاد کسی غلط چیز کی حمایت میں ہو تو پھر یہ اتحاد نہیں مافیا کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو ہر حال میں صرف اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے ہمارے معاشرے میں جاگیرداروں‘سرمایہ کاروں کے علاوہ بھی سینکڑوں ایسے گروہ معرض وجود میں آچکے ہیں کہ جو اپنے مفاد ات کی خاطر آخری حد تک چلے جاتے ہیں ظاہر ہے کہ ان مافیاز کو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور طاقتور شخصیات کا تعاون بھی کسی نہ کسی طرح حاصل ہوتا ہے اگر غور کیا جائے تو طاقتور افراد کی سرپرستی کے بغیرمافیاز کی تشکیل اور چلنا ممکن ہی نہیں ہے اگر کوئی حکومت واقعتا مافیاز اوران کی بلیک میلنگ سے جان چھڑوانا چاہتی ہے تو اسے مربوط حکمت عملی اور عوامی تعاون حاصل کرنے کے ساتھ ان تمام اسباب پر غور کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے مافیاز پیدا ہوتے ہیں اور ہر قسم کے خطرے سے بے خوف و خطر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں گروہی نظام‘جمہوری نظام سے مکمل طور پر متصادم ہے بادشاہی نظام میں گروہوں کی مدد سے سلطنت پر گرفت مضبوط رکھی جاتی تھی برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں سے پہلے نظام پر بھی غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بادشاہوں نے ہر علاقے میں اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے ہر علاقے میں اپنے وفاداروں پر مشتمل سرداری نظام قائم کر رکھا تھا یہ سردار اپنے علاقے کی رعیت کو قابو میں رکھتے اور بادشاہ وقت کا وفادار بنائے رکھتے تھے جب انگریزوں نے قبضہ کیا تو انہوں نے بھی اپنے وفاداروں کو جاگیروں اور زمینوں سے نواز کرجاگیردارانہ اور سردارنہ نظام مضبوط کیا پاکستان بننے کے بعد ہر جگہ مفاد پرستوں کے ٹولے معرض وجود میں آتے گئے چالاک و ہوشیار‘لالچی اور بے ضمیر افراد نے حصول مفادات کرلئے سیاسی‘مذہبی‘تجارتی اور لسانی گروہ تشکیل دئے ان گروہوں میں ان افراد کو کلیدی حیثیت حاصل تھی جو سادہ لوح عوام کو ورغلا نے کا فن جانتے تھے عوامی استحصال کے دروازے کھلتے گئے پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر جگہ مافیاز اور پریشر گروپ نظر آنے لگے جنہیں بہر حال طاقتور شخصیات اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرپرستی حاصل رہی ہر علاقے میں بدمعاشیوں کے اڈے قائم تھے اور آج بھی موجود ہیں جرائم پیشہ گروہ کھلم کھلا اپنا کام کرتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ان کی پشت پناہی کرنے والے افراد خاصے باررسوخ ہوتے ہیں لاقانونیت کی حوصلہ افزائی متعلقہ محکمے ہی کرتے ہیں سب سی بڑی مثال تجاوزت‘بے ہنگم عمارتیں‘ذخیرہ اندوزی‘غیر میعاری اور ملاوٹ زدہ خوراک‘جعلی ادویات اور ہر گلی محلے میں لاقانونیت کے مظاہرے ہیں آج بھی کسی محکمے میں رشوت کے بغیر کام نہیں کیا جاتا مگر کسی بھی قصوروار سرکاری افسریا اہلکار کا محاسبہ نہیں کیا جاتا دہشت گردی پر قابو پانا سب سے مشکل اور اعصاب شکن مرحلہ تھا دہشت گردوں نے پاکستان میں گوریلہ جنگ شروع کی ہوئی تھی ان کی پشت پناہی پر بھارت اور کئی دوسرے ممالک موجود تھے مگر جب عوام حکومت اور اداروں نے تہیہ کرلیا تو دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیا گیا ہمارے عسکری اور خفیہ اداروں کی مفالیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں اب پورے ملک میں ایسا نیٹ ورک قائم ہو چکا ہے کہ کسی بھی فرد کی مذموم سرگرمیاں پوشیدہ نہیں ہیں نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہر فرد کا مکمل ڈیٹا حکومت کے پاس موجود ہے اس کے باوجود بھی ملک میں مافیاز فعال ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان مافیازکوکسی نہ کسی طرح قانون نافذ کروانے والے اداروں کی سرپرستی حاصل ہے حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہی یہ ہے کہ پوری ریاست گروہوں میں تبدیل ہونے جا رہی ہے گروہ بندی کا جو نظام پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں قائم تھا اب وہ شہروں تک پھیل چکا ہے چھوٹی سیاسی‘دینی اور لسانی پارٹیاں بھی طاقتور گروہوں میں تبدیل ہو چکی ہیں یہ ہر موقع پر بلیک میلنگ شروع کر دیتے ہیں اور دباؤ ڈال کر اپنا کام اور مقصد نکلوا لیتے ہیں موجودہ حکومت کویہ اندازہ ہو چکا ہے کہ پورے ملک میں مفاد پرست گروہ طاقتور مافیاز کی شکل اختیار کر چکے ہیں مافیا میں ہر قسم کے بااثر افراد موجود ہیں حکومت کو سب سے پہلا واسطہ سیاسی مافیاز سے پڑا انہیں اندازہ ہوا کہ کس طرح چالاک‘ شاطر مفاد پرست‘لالچی ابن الوقت اور بے ضمیر افراد سیاسی پارٹیوں کا حصہ بن جاتے ہیں ان افراد کی شمولیت سے سیاسی پارٹیاں اپنے مقصد اور منشور سے کس طرح ہٹ جاتی ہیں ان افراد کا انتخابات میں بے دھڑک رقم خرچ کرنے کا مقصد عوام ریاست اور معاشرے کی خوشحالی اور ترقی نہیں ہوتا بلکہ صرف ذاتی مقاصد کا حصول ہوتا ہے ان افراد کو نظریاتی اور قومی سیاست کے مفہوم تک کا علم نہیں ہوتا یہ اپنی رقم ایک ایسے جوئے میں لگاتے ہیں کہ کامیابی کی شکل میں ایک ہزار وصول ہو جاتے ہیں عزت‘دولت اور شہرت الگ حاصل ہوتی ہے پاکستانی عوام بھی اس انتخابی نظام اور طرز سیاست کے عادی ہو چکے ہیں اور وہ اسی کو سیاست سمجھتے ہیں حتی کہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس معاملے میں زیادہ شعور نہیں رکھتا قبضہ گروپ‘پراپرٹی ڈیلرز‘لینڈمافیا‘ ذخیرہ اندوزوں اور دوسرے شاطر افراد نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ خوب دھوئے مگر یہ مافیاآج بھی معزز سیاستدان کہلاتا ہے جب اس بات کا علم ہوا تو ہمارے وزیراعظم نے اعلان کر دیا کہ وہ مافیاء کے خلاف بھرپور کاروائی کریں گے مگر انہیں پریشر گروپ بھی نظر آتے ہیں چنانچہ مافیاز کو کچلنے کا عزم بھی ایسا ہی نظر آتا ہے کہ جیسے پیشہ ور سیاستدانوں اورملکی خزانے اور عوامی دولت لوٹنے والے افراد کے خلاف انہوں نے اظہار کیا تھا وزیراعظم کی اپنی پارٹی میں بھی ایسے کھلاڑی موجود ہیں دوائیاں‘آٹا اور چینی کے بحران میں حکومت اور اپوزیشن کے کئی سیاستدانوں کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں اب مافیاز پہلے سے زیادہ مضبوط اور بے مہارہو رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت ہوا میں معلق ہے ایک آدھ اتحادی جماعت کے سرکنے سے ہی زمین بوس ہو سکتی ہے کمزور اور معلق حکومت کا اصولی فائدہ مافیاز اٹھارہے ہیں اگر عمران خان ملک میں مثبت تبدیلی کے متمنی ہیں تو اس سلسلے میں انہیں ہر دباؤ سے نکلنا پڑے گا اور اگر وہ کسی بھی مصلحت کو خاطر میں نہیں لاتے تو وہ یہ کام بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دے کر عوام کے سامنے سرخرو ہو سکتے ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں