
خالد محمود مرزا
آج ایک ایسی شخصیت کا تذکرہ لیکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، جس نے اپنی پوری زندگی خاندان کو کھڑا کرنے اور ساتھ چلانے کی کوشش کی، خاندان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا انھوں نے کسی کو گرنے نہیں دیا، کسی کو پیچھے نہیں رہنے دیا‘ قدم قدم اپنے خاندان کی راہنمائی کی، اپنے خاندان کی مکمل سرپرستی کی، یوں کہا جاسکتا ہے پورے خاندان کو اپنے پروں کے نیچے چھپا کر رکھا سب کو گرم سرد موسم سے بچایا اس شخصیت کا نام نور زمان ہے، اپ چورہ گاؤں،یوسی کولیاں حمید تحصیل راولپنڈی میں نواب خان کے گھر 1946 میں پیدا ہوئے، انھوں نے میٹرک کا امتحان 1964میں گورنمنٹ ہائی سکول چکری سے پاس کیا، اس کے بعد JV کا کورس مکمل کیا، JV کے بعد 1966 میں وہ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے، ان کی پہلی پوسٹنگ گورنمنٹ ہائی سکول کلرسیداں میں ہوئی یہاں انھوں نے پانچ سال گزارے، اس کے بعد انھوں نے 1971 سے لیکر 1983 تک گنگا والہ ہائی سکول میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا، 1983
سے 1991 تک ملوکال پرائمری سکول میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا، 1991 سے 1993 تک گورنمنٹ ہائی سکول ڈھوک چوہدریاں میں بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرتے رہے، دوبارہ ایک سال گنگا والہ ہائی سکول میں گزارا، اس طرح مختلف سکولوں میں سروس کرنے کے بعد انہوں نے اپنی سروس کے آخری دو سال بطور L,C یوسی لوہدرہ مرکز بسالی میں زمہ داریاں ادا کیں، انھوں نے ساٹھ سال کی عمر میں مرکز بسالی سے 31 اگست 1996 کو بطور L.C ریٹائرمنٹ لی، ان کی زندگی میں بہت مشکلات آئیں، لیکن انھوں نے مشکلات کا سامنا کیا،لیکن مشکلات سے گھبرا کر سائڈ پر نہیں ہوئے انھوں نے بڑا بھائی بن کر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا تھا، وہ بڑے بھائی تھے، لیکن دونوں بہنوں اورتین بھائیوں، بھتیجوں اور بہنوں کی اولادوں کے والد بھی تھے، انھوں نے زندگی میں مسلسل محنت کی، لیکن کسی کا حق نہیں مارا، کسی سے زیادتی نہیں کی، انھوں نے اپنے پورے خاندان کو اٹھانا تھا،
وہ بڑے بھائی تھے، انھوں نے پورے خاندان کو باپ بن کر سہارا دیا، وہ باپ تھے، وہ بڑے بھائی تھے، وہ خاندان کے سرپرست تھے، ان کے تین بھائی ملک فیروز خان، ملک محمد یوسف اور حاجی ملک اسماعیل ہیں اور چھ ان کے بھتیجے ماسٹر ملک جمشید فیروز خان جن کی رہائش قائد اعظم کالونی میں ہے،ملک محمد اعجاز، ملک شہزاد ملک، ملک فیض،ملک محمد سلیم، ملک محمد ندیم ہیں، دونوں بہنیں اور تینوں بھائی بھی ان کو باپ کا مقام دیتے تھے، ایک بہن اللہ کو پیاری ہوگی ہیں، ساری زندگی بہنوں نے اور تینوں بھائیوں نے ان کے سامنے سر نہیں اٹھایا، اور انھوں نے اپنے بہن بھائیوں کو سینے سے لگا کر رکھا،ان کی ہر ضرورت کو پورا کیا ان کی اپنی اولاد نہیں تھی، لیکن بھتیجوں کو سکے بیٹے بنا کر رکھا ، وہ اپنے بھتیجوں کو سکے باپ کی طرح پیار کرتے تھے اور بھتیجے ان کو اپنے باپ سے بڑھ کر عزت دیتے تھے، وہ اپنی بیوی کے شفیق خاوند تھے، ان کی زندگی سب کے لئے رول ماڈل تھی، وہ اپنی دو بہنوں، تین بھائیوں اور چھ بھتیجوں اور دیگر خاندان کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے، اس کے ساتھ ساتھ گاؤں اور علاقے میں فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیتے تھے، وہ عام آدمی سے قریبی رابطہ رکھتے تھے سب کی خوشی و غمی میں شرکت کرتے تھے وہ شرافت کا پیکر تھے وہ ایک عزت دار انسان تھے
وہ سب بیٹیوں کی عزت کے رکھوالے تھے انھوں نے 1965 سے ڈائری لکھنا شروع کی، اس دن سے لیکر زندگی کے آخری دن تک ڈائری پر اپنی یاداشتوں کو قلم بند کیا، یہ ڈائری لکھنا ان کی زندگی کا معمول رہا، انھوں نے زندگی کے آخری دن بھی ڈائری پر اس دن کے اہم واقعات لکھے، وہ ایک سایہ دار درخت تھے،جن کی گھنی چھاؤں میں انسانیت کو چین اور سکون نصیب ہوتا تھا، وہ مطالعہ کے بہت شوقین تھے اپنی وفات سے چند دن پہلے کہنے لگے آپ کے کالم بڑے شوق سے پڑھتا ہوں، میں نے پوچھا کہ آپ تک کیسے پہنچتے ہیں کہنے لگے میرا بیٹا ندیم سعودی عرب سے بھیجتا ہے، ان سے آخری ملاقات بلاول میں ملک ممتاز صاحب کی پھپھو زاد بہن اور ماسٹر اشرف صاحب کی ہمشیرہ کی دعا کے موقع پر ہوئی ، وہ ہمارے ساتھ گاڑی میں آئے،پرانے واقعات سناتے رہے کہنے لگے سروبہ سے ناصر خان زمانہ طالبعلمی میں بہترین اتھلیٹ تھے، سہال کے درویش بابا ماسٹر چوہدری سکندر خان کے ساتھ ان کا بڑا دوستانہ تھا، وہ اپنی زبان پر کوئی منفی بات نہیں لاتے تھے، وہ یکم اکتوبر 2025 دل کا دورہ پڑھنے سے اچانک اپنے خالق حقیقی سے جاملے،
اس طرح خیر بانٹتے بانٹتے اپنے رب کے پاس پہنچ گئے، وہ سراپا خیر تھے، وہ سایہ دار درخت تھے، وہ محبت کا پیکر تھے، وہ اپنے خاندان کے محسن تھے، ان کی زندگی میں ٹھہراؤ تھا، ان کے اندر تحمل اور برداشت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، ان کی زبان پر حرف شکایت نہیں تھی، وہ برگد کا درخت تھا جس کی چھاؤں میں تمام چھوٹے بڑے پر سکون زندگی گزار رہے تھے، آج پورا خاندان، بھائی، بھتیجے، دوست احباب سخت افسرودہ ہیں، ان کی اچانک موت سب کے لیے شدید صدمے کا باعث بنی ہے، لیکن یہ حق کا راستہ ہے، ہر ذی روح نے موت کا مزا چکھنا ہے، یہ بات اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم الشان میں تین مقامات پر بیان فرمائی ہے، ہم اللہ سے دعا گو ہیں، اللہ تعالیٰ ماسٹر ملک نور زمان کی اگلی ساری منازل آسان فرمائے آمین اور انسان ہونے کے ناطے ان سے جو کمزوریاں سرزد ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو معاف کردے ان کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے، ان کے خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین اور ہم سب کو صراط مستقیم پر چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین