مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح‘ طبعی موت یا قتل

نو جولائی 1967 کی بات ہے کہ یہ خبر پورے پاکستان میں پھیل چکی تھی کہ محترمہ فاطمہ جناح انتقال کر گئی ہیں۔انتقال سے ایک دن قبل محترمہ فاطمہ جناح حیدرآباد (دکن) کے سابق وزیراعظم میر لائق علی کی صاحبزادی کی شادی میں شریک ہوئیں۔ قائداعظم کے سابق پرائیویٹ سیکریٹری مطلوب الحسن سید نے محترمہ کے انتقال کے بعد بتایا کہ ان کی ملاقات محترمہ فاطمہ جناح سے ہوئی۔ محترمہ نے انہیں بتایا کہ ان کا دل ڈوب رہا ہے اور وہ جلد اپنے گھر واپس جانا چاہتی ہیں۔مادر ملت کا معمول تھا کہ وہ سونے سے قبل قصر فاطمہ کے تمام دروازے مقفل کر کے بالائی منزل میں اپنے کمرے میں سو جاتی تھیں اور صبح بیدار ہونے کے بعد چابیوں کا گچھا بالکونی سے نیچے پھینک دیا کرتی تھیں تاکہ ملازم سات بجے انہیں اخبارات پہنچا دیں۔ اخبارات دیکھنے کے بعد جب وہ نہا دھوکر تیار ہوتیں تو ملازم 10 بجے انہیں ناشتہ دے دیا کرتا ۔ ناشتے کے بعد محترمہ نچلی منزل میں اپنے دفتر میں آ جاتیں۔نو جولائی 1967کی صبح خلاف معمول محترمہ نے چابیاں نہیں پھینکیں۔ دس بجے تک بھی محترمہ بیدار نہیں ہوئیں، دروازہ کھٹکھٹانے کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا تو ملا زم ان کی ہمسائی بیگم غلام حسین ہدایت اللہ کے پاس گیا اور انہیں صورت حال بتائی۔وہ فوراً قصر فاطمہ پہنچیں، جب دروازہ کسی طرح نہ کھلا تو اسے توڑ کر یاکسی اور چابی کی مدد سے اسے کھول کر اندر پہنچا گیا، جہاں بستر پر محترمہ فاطمہ جناح کی لاش پڑی تھی۔ اس کے بعد ڈاکٹر کرنل جعفر اور کرنل شاہ کو بلایاگیا۔ دونوں ڈاکٹروں نے محترمہ کی موت کی تصدیق کی اور کہا کہ موت قدرتی طور پر واقع ہوئی ہے۔ حکومت نے اگلے دن عام تعطیل کا اعلان کیا اور فیصلہ کیا کہ محترمہ کو میوہ شاہ قبرستان میں دفن کیا جائے، مگر محترمہ کے لواحقین اورعوام نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ حکومت نے اعلان کیا کہ انہیں قائداعظم کے مزار کے احاطے میں شہید ملت لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کی قبور کے ساتھ دفن کیا جائے محترمہ کی لاش کو غسل دینے کے لیے حاجی ہدایت علی کو طلب کیا گیا حاجی ہدایت اللہ کی ہدایت پرتین غسالہ خواتین فاطمہ سید، فاطمہ قاسم اور فاطمہ بائی بچو نے محترمہ فاطمہ جناح کی میت کو غسل دیا اور تجہیز و تکفین کی۔صدر مملکت ایوب خان نے اپنی ڈائری میں تحریر کیا کہ دوپہر کے وقت اطلاع ملی کہ حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے مس جناح کا انتقال ہو گیا ہے۔میں نے اگلے روز کو عام تعطیل قرار دینے، پورے ملک میں قومی سوگ منا ئے جانے اور قومی پرچم سرنگوں کرنے کا اعلان کیا۔آغا اشرف کے مطابق ’جنازے میں تقریباً پانچ لاکھ افراد موجود تھے۔ اچانک کچھ لوگوں نے جنازے کے قریب آنے کی کوشش کی، پولیس نے پرامن طریقے سے انہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش تو ایک ہنگامہ برپا ہو گیا اور پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا، آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا۔ جوابی کارروائی میں پولیس پر پتھراؤ ہوا اور مشتعل ہجوم نے ایک پیٹرول پمپ اور ڈبل ڈیکر بس کو آگ لگادی۔ تدفین کی آخری رسومات ادا کی گئیں اور محترمہ فاطمہ جناح کو سپردخاک کر دیا گیا فاطمہ جناح کی تدفین کے بعد مختلف حلقوں نے کہنا شروع کیا کہ ان کی وفات طبعی نہیں تھی بلکہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔غسل کے دوران غسالوں نے دیکھا کہ محترمہ کے جسم پر گہرے زخم ہیں اور جگہ جگہ چوٹوں کے نشان ہیں، ہم خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے۔ غسالوں نے محترمہ کے جسم پر نشانات اور گہرے زخم دیکھ کر احتجاج کرنا چاہا اور معاملے کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے زبان کھولی لیکن کچھ لوگوں نے کہا کہ اس معاملے میں خاموشی اختیار کی جائے۔‘ غسالہ فاطمہ سید نے بعد میں بتایا کہ جب میں نے غسل کے لیے میت کا جائزہ لیا تو میری روح لرز گئی، مادر
ملت کی گردن پر چار انچ سے زائد لمبا زخم تھا جس پر ٹانکے لگے ہوئے تھے، ان کے گھٹنے پر زخم تھا، دایاں رخسار سو جا ہوا تھا اور جسم نیلا ہو کر اکڑ گیا تھا، ان کی چادر اور لباس خون میں لت پت تھی اور خون کے خشک دھبوں سے کپڑا سخت ہو گیا تھا۔ میں نے محترمہ کے جسم پر زخموں کے بارے میں منہ کھولنا چاہا لیکن مجھے منع کر دیا گیا۔’خون آلود کپڑے میں اپنے ساتھ اجازت سے گھر لے آئی تھی، ایک سال تک یہ میرے پاس رہے، جب سڑنے لگے تو میں نے ان کو اپنے گھر کے پاس پلاسٹک کی تھیلی میں دفن کر دیا۔ میں یہ کپڑے لائی تو میری جماعت کے لوگوں نے مجھے خوف دلایا کہ میں ان کا کسی سے تذکرہ نہ کروں، میں خوف زدہ تھی، میرا ضمیر بار بار مجھے مجبور کررہا تھا کہ میں وہ سب کچھ بتا دوں جو میں جانتی ہوں۔‘ایک اور غسالہ فاطمہ بائی بچو نے محترمہ فاطمہ کے جسم پر زخموں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ محترمہ کے پیٹ میں ایک باریک سوراخ تھا جس سے متعفن پانی بہہ رہا تھا۔ ان کے جسم پر جگہ جگہ چوٹ کے نیل پڑے ہوئے تھے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے انہیں کسی نے زدوکوب کیا ہو۔تیسری غسالہ فاطمہ قاسم نے بھی ان ہی تفصیلات کی تصدیق کی۔ ان شہادتوں سے یہی قیاس آرائی کی جا سکتی ہے کہ جب محترمہ شادی کی تقریب میں گئی ہوں گی تو کوئی ڈاکو پہلے سے کمرے میں داخل ہو چکا ہو گا اور ان کے واپس کمرے میں آنے کے بعد چھپ گیا ہو گا، جب وہ سو گئی ہوں گی تو نامعلوم شخص نے قیمتی زیورات حاصل کرنے کے لیے ان پر حملہ کر دیا ہوگا، کیونکہ محترمہ کو زیورات کا بہت شوق تھا اور قیمتی زیورات ان کے پاس موجود تھے۔اس کے ساتھ یہ شبہ بھی بعید ازقیاس نہیں کہ چوں کہ وہ غصیلی عادت کی مالکہ تھیں اور گھریلو ملازمین ان سے ڈرتے تھے، انہیں اگر کسی ملازم کی دیانت داری مشکوک نظر آتی تو تحقیقات کراتی تھیں اور نکال دیتی تھیں، شاید کسی ملازم نے کسی رنجش کا بدلہ لینے کے لیے یہ حرکت کی ہو کیونکہ گھریلو حالات سے نجی ملازم بھی واقفیت رکھتے تھے۔ ’جب لیڈی ہدایت اللہ واپس قصر فاطمہ پہنچیں اور کمرے کے نہ کھلنے پر پریشان تھیں تو ایک نوکر آیا جو فاطمہ جناح نے کچھ دن پہلے نکال دیا تھا اور اس نے لیڈی ہدایت اللہ سے کہا کہ میرے پاس ایک چابی ہے شاید یہ تالے کو لگ جائے۔ نوکر نے چابی دی، وہ چابی دروازے میں لگ گئی جس کے بعد لیڈی ہدایت اللہ نے تالا جوں کا توں دوبارہ بند کر دیا اور چابی اسی نوکر کو دے دی وہ نوکر بھی غائب ہو گیا تھا وہ نوکر پھر نہیں آیا۔‘ جنوری 1972 میں غلام سرور نامی ایک شخص نے فاطمہ جناح کی وفات کے حوالے سے عدالت میں ایک درخواست سماعت کے لیے دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مجھے یہ تشویش ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کو کہیں قتل نہ کیا گیا ہو۔‘ پھر یہ نہیں بتایا گیا کہ اس درخواست کو کیا فیصلہ ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں