مائیں تو سب کی ایک جیسی ہوتی ہیں

شاہد جمیل منہاس/نسیم بی بی کو نوکری سے صرف اس لئے نکال دیا گیا کہ اسے کالا یرقان ہو گیا تھا۔کچھ برس قبل جب نسیم کے شوہر کا انتقال ہوا تو اپنی پہاڑ جیسی زندگی کا سوچ کراس نے اپنے معصوم بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے گھر سے باہر نکل کر مزدوری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔زندگی کی اُلجھنیں اور تکلیفیں انسان کو طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا کر کے بے شمار بیماریوں میں مبتلا کر دیا کرتی ہیں۔ نسیم نے بھی اپنی زندگی کے ساتھ تن تنہا لڑنے کا فیصلہ کیا تو اس کی اکیلی جان وبال جان حالات کا مقابلہ کرتے کرتے تھک گئی اور پتہ چلا کہ اسے جان لیوا مرض لاحق ہو چکا ہے۔ مختصر یہ کہ نسیم کو جب نوکری سے نکالا گیا تو اس کا بیٹااس قابل ہو چکا تھا کہ اپنے ننھے ہاتھوں سے نوجوانی کی تاب اور امنگ لیے محنت مزدوری کر سکتا تھا۔ لہذانوکری کی تلاش میں اس کا بیٹا جو ا وروں کیلئے نوجوان اور ماں کیلئے ایک معصوم بچہ تھا۔دن رات مزدوری کی تلاش کے ساتھ ساتھ اپنے بہن بھائیوں کے خالی پیٹ کا خیال لئے اور اپنی والدہ کی بیماری کی حالت زار کو سوچتے سوچتے اپنے گھر سے کوسوں دور نکل جاتا مگر بغیر کچھ کمائے اسے گھر واپس لوٹنا پڑتا۔زندگی سے اس قدر تنگ آیا کہ ایک رات اپنے گھر والوں کی بھوک وننگ اس سے دیکھی نہ گئی اور وہ فعل سرزد کیا کہ جو اسلام میں بد ترین گناہ سمجھا جاتا ہے۔اس نوجوان نے اس رات خودکشی کر لی اور اپنی زندگی کا خاتمہ خدا کے حکم کے منافی چل کر کر لیا جو کہ سرا سر اسلام کے منافی بھی ہے۔ اسی لیئے غربت سے پناہ مانگی گئی ہے۔انسان گناہ گار ہے لہذا ہر انسان اس میعار پر پورانہیں اُتر سکتا۔بہر حال ہر حکومت اپنے باسیوں کے رہن سہن اور روزگار کی ذمہ دار ہے۔کوئی بھی حکومت چاہے وہ اسلام کے نام پر بنی ہو یا غیر مسلم حکومت ہو ہم نے دیکھا کہ وہ اپنی رعایا اور عوام کا ہر لحاظ سے خیال رکھتی ہے۔اس وقت ہمارے اس مادر وطن میں دو قسم کے طبقات پائے جاتے ہین ایک وہ جو دولت کے نشے میں چور چور اور دوسرا وہ جو غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔ امیر امیر ترین اور غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ہماری کل آبادی کے دس 10%حصے نے پورے ملک کی دولت پر قبضہ جمارکھا ہے جن کو غربا ء و مساکین اور عام لوگ کیڑے مکوڑے دکھائی دیتے ہیں۔شاید ان کا اسلام کے بنیادی عقائد پر ایمان کمزور ہے یا انھیں ان عقائد کے بارے میں کسی نے بتایا ہی نہیں یا وہ جان بوجھ کر اس حقیقت کی طرف جانا ہی نہیں چاہتے۔ مثال کے طورپر ان عقائد میں سے ایک عقیدہ تقدیر پر ایمان لانا ہے۔اگر تقدیر پر ہمارا ایمان پختہ ہو توہم اس دنیاوی عیش و عشرت اور دولت کو ایک تنکے سے زیادہ کچھ نہ سمجھیں اور تقدیر یعنی قدرت کے لکھے کو اٹل حقیقت سمجھ کر ڈر ڈر کر زندگی گزاریں تو یہ ہوہی نہیں سکتا کہ کوئی ہماری وجہ سے رزق سے محروم ہو جائے۔خدا کی ذات اگر کسی کو کوئی بیماری یا تکلیف دیتی ہے تو وہ باقی انسانیت کیلئے عبرت کا مقام ہوتا ہے۔نہ جانے ہم یہ کیوں سمجھ لیتے ہیں کہ ہم کسی آزمائش یا تکلیف میں مبتلا نہیں ہو سکتے۔اگر بیماری نسیم بی بی کو لگ سکتی ہے تو اس کے صاحب کوکیوں نہیں لگ سگتی۔ کہ جس نے یقینا یہ سوچا ہوگاکہ اس کی وجہ سے میں بھی بیمار نہ ہو جاؤں۔لہذا اُس نے نسیم بی بی کو نوکری سے نکال دیا۔ فرمان عظیمؐ ہے کہ اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو میرا اللہ ہی مجھے شفا دیتا ہے :ایک اور سبق اموز بات بھی ہمیں یاد رکھنی ہو گی کہ عزت اور زلت صرف رب کے ہاتھ میں ہے۔لہذا بیماریوں کا آنا جانا بھی ہمارے رب کے ہاتھ میں ہے۔کاش نسیم بی بی کے صاحب کو یہ باور ہو جائے کہ نفرت اور حقارت اور وہ بھی اپنے مسلمان بھائی ا
ور بہن سے بذات خود ایک بہت بڑی بیماری ہے۔میرا یہ مشورہ ان صاحب کیلئے مفت ہے کہ وہ آج ہی اپنا چیک اپ کروائیں تو یقینا نسیم بی بی سے بڑی بیماری ان کو لاحق ہو چکی ہو گی۔ہمیں اس مختصر سی زندگی میں دعاؤں کے سمندر سمیٹنے ہوں گے تو تب جاکر آخرت کو جانے والی شاہراہ عام پر چلنا ہمارے مقدر میں لکھا جائے گا۔مسلمان کا جوٹھا کھانا پینا اسلام میں بہت پسند کیا گیا ہے۔لہذا اگر ایک مسلمان کے بیمار ہو جانے سے دوسرا مسلمان یا انسان بیمار ہو جاتا تو ایک مسلمان کا جوٹھا کھانا پینا بھی ممنوع قرار دے دیا جاتا۔نسیم بی بی آج اپنے جوان بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے رخصت کر کے کس قدر دکھی ہے کاش اس کا اندازہ ان نام نہاد صاحبان کو ہوتا تو کسی کی بیماری اور غربت کا مذاق ہر گز نہ اُڑائیں۔لیکن یاد رہے کہ مظلوم کی آہ کبھی ظالم کو چین سے رہنے نہیں دیتی۔ لہذا نسیم بی بی کی فریاد اور غربت بھری زندگی اس کے صاحب کے خوابوں میں ضرور آتی ہو گی۔یہ اپنوں کے دکھ بھی بڑے عجیب اور جان لیوا ہوتے ہیں۔یہ دکھ ہر انسان کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔بہت سے امیر کبیر اور پھولوں کی سیج پر سونے والے افراد کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ لوگ گنا ہ گارہیں۔بلکہ آزمائش انسان کو سیدھے راستے پر چلتے ہوئے مزید سیدھا رکھنے کیلئے ضروری ہوتی ہیں۔کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ میرے بہت ہی پیارے دوست ملک اشتیاق کی والدہ اچانک االلہ کو پیاری ہو گئی تو مجھے ان کے جنازے پر جانا نصیب نہ ہوا۔چند دن بعد میں ملک اشتیاق اور ملک خالد کے گھر گیا تو باتو ں باتوں میں اشتیاق بھائی مجھے کہنے لگے کہ 2009ُٗء میں میری والدہ اور میں عمرے کیلئے گئے تو اللہ کے گھر میں بیٹھ کر میں نے اپنی والدہ کے پاؤں چھوئے اور کہا کہ مجھے کوئی دُعا دیں۔ تو کہنے لگیں کہ اللہ تمھیں دنیا اور آخرت کی ہر خوشی عطا کرے اور ربّ کریم تمھیں ہر سال روضہء رسول ﷺ کی زیارت کرائے۔تو میں نے کہا ۔آمین! آج وہ ہمیں چھوڑ کر وہا ں چلی گئی جہا ں سے کوئی واپس نہیں آیا مگر2009سے لیکر آج اللہ کی ذات ہر سال مجھے روضہء رسولﷺ کی زیارت نصیب کر رہی ہے۔یہ ہوتی ہیں دعائیں جو انسان کے ساتھ ایسے دوستی کر لیتی ہیں۔ کہ جیسے سایہ۔اشتیاق کی بات سن کر اس کی طرف دیکھا تو وہ شدت جذبات سے رو رہا تھا۔لیکن وہ بے حد مطمئن تھا کیوں کہ اس نے اپنی والدہ مرحومہ کی دن رات خدمت کی تھی۔کاش نسیم بی بی کے صاحب کو بھی یہ احساس ہو جاتاہے کہ نسیم بی بی بھی کسی کی ماں ہے اور مائیں تو سب کی ایک جیسی ہوتی ہیں۔کاش اسے خیال آجاتا کہ نسیم بی بی ایک غریب ماں ہے اور غیرت مند اولاد اپنی ماں کی غربت برداشت نہیں کیا کرتی۔کاش یہ دنیاوی صاحبان آخروی صاحبان بننے کی کوشش بھی کریں تو نسیم بی بی جیسی ہماری مائیں بہنیں اور بیٹیاں تنگ دستی اور غربت سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ زندگی سے جو بھلائی اور بہتری میسر ہو وہ حاصل کر لیا کروکیونکہ جب زندگی کچھ لینے پر آتی ہے تو سانس تک لے لیتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں